کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 65
ہوئے تھا، اس نے بتایا کہ ’’یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے۔‘‘ جب میں نے اُسے کھولا تو وہ تم تھی۔ میں نے سوچا: یہ خواب اللہ کی طرف سے ہوا تو اللہ اسے ضرور پورا کرے گا۔‘‘
3. مسلمان مکہ مکرمہ میں نہایت مظلومی کی زندگی گزار رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جامع نظام رکھنے کے باوجود مکہ مکرمہ میں اس کا نفاذ تو ایک طرف، کھلے عام ذاتی حیثیت میں عمل بھی نہیں کرسکتے تھے۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایسی کوشش کی، اُنہیں شدید تکالیف دی گئیں ۔ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ حالانکہ مکی نہ تھے، نہ ہی قریشی تھے اور نہ ہی ان کے حلیف، اس کے باوجود اُنہیں اعلانیہ عمل کی کوشش پر کس طرح پیٹا گیا جس کی تفصیلات کتب ِحدیث و تاریخ میں موجود ہیں ۔[1]چنانچہ ایک طرف شعور و حواس تھے کہ وہ اس ظلم کی چکی سے نکلنے کی ہر طرح کوشش فرما رہے تھے اور دسری طرف بیت اللہ کی محبت تھی کہ اس کا جوار چھوڑنا قطعاً آسان نہ تھا، جبکہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے عملی اظہار کامرکز ’مدینہ منورہ‘ کو مقرر فرمایا تھا۔ اور مکہ کے باسی رہائش کیلئے مکہ پر کسی کو فوقیت نہیں دیتے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ’یثرب‘ کی سرزمین سے اُنسیت پیدا کرنے کے لئے بذریعہ خواب وحی کی اور دارِہجرت کی اطلاع دی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کو مختلف ابواب میں اپنی اجتہادی بصیرت کے ساتھ ذکر کیا ہے:
عن أبي موسٰی أراہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: (( رأیتُ في المنام أني اُھاجر من مکۃ إلی أرض بھا نخل…))[2]
’’سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں مکہ سے کھجوروں والی سر زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں ۔‘‘
پس اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دار ِہجرت سے اُنسیت پیدا ہوئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وقتاً فوقتاً اس سے آگاہ کرتے رہے جس سے نبوت کی صداقت کا بھی اہتمام ہوا۔