کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 64
ان کی تفصیل یہ ہے: 1. پچھلے صفحات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں آ کر پہلی وحی ﴿إقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَأ وَرَبُّکَ الأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ﴾[1]دینے کی تفصیل دی گئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی تیاری کے لئے تھا اور یہی ذہنی تیاری یقین و ایقان کی پختگی کا سبب تھا جیسے کہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے سلف کا فہم گزر چکا ہے۔ 2. نبوت کے گیارھویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت حزین ہونے کی بنا پر پورے سال کو عام الحزن قرار دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست چچا اور گھر میں ڈھارس بندھانے والی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا دونوں داغِ مفارقت دے گئے۔ اس حالت کو شاید کوئی امتی محسوس نہیں کرسکتا، بس ہلکا سا اندازہ وہ شخص کرسکتا ہے جو خود ناگفتہ بہ حالات میں کسی مضبوط ظاہری سہارے اور تھپکی دے کر ہمت بندھانے والے ہاتھوں سے محروم ہو جائے۔ اس نہایت سخت وقت اور نہایت شدید حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت تھی ذہنی سکینت کی، خانگی اُمور کے تفکرات سے آزادی کی، اور قلبی کیفیات کے اطمینان کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصویر خواب میں دکھلائی گئی اور یہ وحی کیا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہوں گی۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی، محبت و اُلفت اور تعلقات و صحبت سب شیطانی ہتھکنڈوں سے محفوظ و مامون تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی بھی حکم الٰہی ہوتا تھا۔[2] بہرحال صحیح بخاری اور مسلم کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب دیگر کتب ِحدیث میں موجود ہے: (( أریتک في المنام مرتین، إذا رجل یحملک في سرقۃ من حریر، فیقول: ھذہ امرأتک،فأکشفھا فإذا ھي أنت،فأقول: إن یکن ھٰذا من عند اﷲ یمضہ)) [3] ’’مجھے خواب میں دو مرتبہ تم دکھلائی گئی‘ کہ ایک آدمی تھا جو ریشم کے غلاف میں تمہیں اُٹھائے