کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 63
رات کو، کبھی دن میں ، کبھی فرشتے کا انسانی شکل میں ، کبھی فرشتے کی اصلی ہیئت پر، کبھی غیبی آواز سے، کبھی خواب میں ، کبھی الہام کرکے، کبھی القا کرکے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر پر نازل کرتا ہے اور پھر ہر اُسلوب سے دی گئی وحی کو سچ کر دکھاتا ہے۔ مقصود یہ ثابت کرنامعلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام حسیات اور تمام حالتیں مکمل طور پر شیطان سے محفوظ اور مامون ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر ذہنی آسودگی کے حامل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور کی طرح لاشعور اور تحت الشعور بھی اللہ کے مقرر کردہ فرشتوں کے ظاہری اسباب کے ساتھ محفوظ کر دیئے گئے ہیں ۔ جنون کی کوئی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی طاری نہیں ہوسکتی اور اپنے مضبوط ہوش و حواس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی گم نہیں پاتے۔[1]
وہ اَحکام جو بذریعہ خواب وحی کئے گئے، ان میں سے سب سے اہم کلماتِ اذان ہیں ۔ اگرچہ کلماتِ اذان کا خواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہیں دیکھا،لیکن آپ جن خوابوں کی تعبیر فرما دیں چونکہ وہ تعبیر زبان ناطقِ وحی سے دی جاتی ہے لہٰذا اُسے بھی وحی کا درجہ حاصل ہوگا۔ اس میں ہماری دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو بات یا کام کیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پسند فرماتے یا پھر اس کی نکیر نہ فرماتے وہی ’تقریری حدیث‘ کہلاتی ہے۔ لہٰذا اذان کے کلمات جو خواب میں صحابی کو بتائے گئے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری حدیث ہے اور حدیث عقیدۂ اہل السنہ والجماعت کے مطابق وحی ہے۔
البتہ مختلف نوعیت کی خبریں جوکئی مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ خواب وحی کی گئیں ، وہ پانچ اسباب کے تحت کی گئیں :
1. ایقان و یقین میں پختگی کا سبب
2. خانگی تفکرات سے آزادی اور قلبی سکینت کا سبب
3. اُنسیت پیدا کرنے کا سبب
4. علومِ نبوت کی صداقت کا سبب
5. کسی شخص کے احوالِ آئندہ سے آگاہی کا سبب