کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 61
’’حضرت جبرئیل علیہ السلام کا خواب میں آنا بیداری کے عالم میں آنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذہنی تیاری کے لئے تھا۔[1] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس روایت کا تذکرہ کیا ہے۔[2] اور آپ اس کے ساتھ حضرت عائشہ کی حدیث بھی بطریق ابی الاسود عن عروہ لے کر آئے ہیں : أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان أول شانہ یرٰی في المنام…[3] پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ أول ما بدیٔ بہ رسول ﷲ من الوحي الرؤیا الصالحۃ في النوم[4] ’’ وحی کا آغاز جس اسلوب پر ہوا وہ رؤیاے صالحہ تھے جو عالم نیند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھے۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا باقاعدہ وحی کے ظاہری نزول سے پہلے کے چھ ماہ کے دوران عالم نیند میں دکھلائے گئے خوابوں کو وحی کہہ رہی ہیں ۔ درحقیقت یہ وحی ہی ہیں اور خواب کو اسالیب ِوحی میں سے ایک اُسلوب قرار دینا ان کی فقیہانہ بصیرت اور علمی بیداری کی بہترین مثال ہے۔ اسی حدیث میں آگے فرماتی ہیں : فکان لا یرٰی رؤیا إلا جاء ت مثل فلق الصبحن[5] ’’رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دیکھتے، وہ سپیدۂ صبح کی طرح دن میں حقیقت بن جاتا ہے۔‘‘ گویا دن میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اور حرکات و سکنات کی خبر اللہ تعالیٰ ان کو وحی یعنی خواب کے ذریعے دے دیتا۔ باقاعدہ وحی جلی کے آغاز کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوابی وحی یا وحی فی المنام کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا۔ بلکہ بعض خبریں اور احکام کسی مصلحت کے تحت براہِ راست وحی کے بجائے وحی کے دوسرے طریقوں جن میں خواب اور الہام شامل ہیں کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتیں ۔ وحی کے لئے ایک ہی طریقہ اور اُسلوب اختیار کرنے کی بجائے مختلف اسالیب کیوں