کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 60
مِنْ دُوْنِ ذَلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا﴾ [1] ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کاخواب سچا کردکھایا کہ ان شاء اللہ تم یقینا پورے امن و امان کے ساتھ مسجد ِحرام میں داخل ہوگے سر منڈواتے اور سر کے بال کترواتے ہوئے (چین کے ساتھ) نڈر ہو کر۔ وہ ان اُمور کو جانتا ہے جنہیں تم نہیں جانتے، پس اس نے اس سے پہلے ایک نزدیک کی فتح تمہیں میسر کی۔‘‘ تو یہاں کچھ لوگ جو اس نبوی خواب کی صحیح تعبیر نہ کرسکے تھے،اور یہ امر ان کے لئے مایوسی کا سبب بنا تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب کی وحی کے ذریعے صلح کو آثار وعلائم میں دیکھ لیا تھا۔ دراصل خواب اور نبوی تعبیر دونوں وحی ہیں ، حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا آغاز بھی خواب پر مشتمل وحی سے ہوااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غارِ حرا میں پہلی وحی نازل ہوئی تو وہ بیداری کی طرح خواب میں بھی نازل ہوئی تھی۔ طبری کی روایت ہے: (( فجاء ني جبریل وأنا نائم،بنمط من دیباج، فیہ کتاب فقال: اقرأ،فقلت: ما أقرأ۔ فغتّنی حتی ظننتُ أنہ الموت، ثم أرسلني،۔۔۔ فقال: اِقرأ، فقلت: ماذا أقرأ؟،۔۔۔قال: ﴿اِقْرَأ بِسْمِ رَبِّکَ …الخ﴾ قال: فقرأتہا،قال: ثم انتھٰی، ثمَّ انصرف عني،وھببتُ من نومي وکأنما کتب في قلبي کتابا)) ’’میں سویا ہوا تھا۔میرے پاس جبریل آئے ان کے پاس ریشمی غلاف تھاجس میں ایک کتاب تھی انہوں نے مجھے کہا:پڑھو! میں نے کہا کیا پڑھوں ؟ اس نے مجھے ڈھانپ لیا حتی کے میں نے خیال کیاکہ موت آگئی ہے۔پھر مجھے چھوڑ دیااور کہا کہ پڑھو۔میں نے کہاکیا پڑھوں ۔ اس نے کہا پڑھو۔إقْرَأ بِسْمِ … الخ میں نے یہ پڑھا تو میری یہ کیفیت ختم ہوگئی اور وہ چلے گئے۔مجھے میری نیند سے بھی کچھ عطا کیا گیا ہے۔گویا کہ میرے دل میں کتاب لکھ دی گئی ہے۔‘‘ طبرانی میں اس کے بعد حالت ِبیداری میں جبرئیل کے آنے کا بھی ذکر ہے۔ سیرت ابن ہشام میں بھی اس خواب کا تذکرہ ہے۔[2]لیکن عالم بیداری میں جبرئیل کے آنے کا واقعہ نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو معتبر تسلیم کیا ہے اور اس پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے کہ