کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 59
کے بجائے اسی واقعہ کو قرآن کا حصہ بنا دیا، جو اِس بات پر دلیل ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ وکان الأنبیاء یوحٰی إلیھم في منامھم کما یوحٰی إلیھم في الیقظۃ[1] ’’انبیاء علیہم السلام کو خواب میں بھی اسی طرح وحی کی جاتی ہے جس طرح حالت ِبیداری میں وحی کی جاتی ہے۔‘‘ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دکھلائے گئے، کبھی ان خوابوں میں براہِ راست وہی مناظر دکھلائے گئے کہ جن کی تعبیر کی ضرورت نہیں تھی بلکہ صبح ہوتے ہی بلاکم و کاست وہی حالات و واقعات پیش آتے۔[2] اور کبھی خوابوں میں علائم و آثار دکھائے جاتے جن کی تعبیر و تاویل کی جاتی اور وہ تعبیر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبانِ ناطقِ وحی سے خود فرماتے۔[3] لہٰذا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب وحی کی ایک صورت تھی، اسی لئے وحی کی متعینہ صورتوں میں ایک خواب بھی ہیں ، اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد مبشرات من النبوۃ کی خبر دی یعنی کہ علم نبوت کے تمام اجزا اُٹھ جائیں گے، لیکن آثار و علائم کے ذریعے مبشرات دی جائیں گی، اور یہی آثار و علائم ’مبشرات‘ یعنی رؤیاے صالحہ ہیں ۔ اب ’’من علم علمہ ومن جھل جھلہ‘‘ کے مصداق ہر بندہ اپنے عقل و علم کی مدد سے اپنا حصہ اس میں سے وصول کر لے گا ،چونکہ غیر نبی کی تعبیرخواب نبوی بصیرت کے بغیر ہوتی ہیں لہٰذا وہ غلط بھی ہوسکتی ہیں اورصحیح بھی جیسے صلح حدیبیہ سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں عمرہ، طواف اور سعی وغیرہ کرتے دکھلایا گیا، لیکن جب عمرہ نہ کیا جاسکا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ خواب تو عمرہ کا تھا۔ جبکہ اللہ نے صلح حدیبیہ جیسے بظاہر مشکل معاہدے کو ’فتح مبین‘ قرار دیا۔[4]اور اسی سورہ میں آگے چل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو سچا اور حقیقت کر دینے کی نوید سنائی گئی: ﴿لَقَدَ صَدَقَ اﷲُ رَسُوْلَہُ الرُّؤیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَائَ اﷲُ اٰمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُؤوْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ