کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 58
سے زیادہ روایات میں (% ۴۶)منقول ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ہی اہمیت دی ہے بلکہ وہ کتاب التعبیرمیں جتنی روایات لائے ہیں ‘ سب میں %۴۶ ہی مذکور ہے اور یہی بات جمہور علماء کے ہاں بھی مقبول ہے۔
سنن ابوداؤد کی شرح میں منذری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مختلف توجیہات بھی پیش کی ہیں :
٭ چونکہ نبوت کا عرصہ ۲۳ سال پر محیط ہے اورماقبل نبوت عرصہ چھ ماہ آپ کو خواب دکھلائے گئے جو کہ نبوت کے عرصہ کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
٭ مؤمن کے لئے چھیالیس فیصد اورفاسق کے لئے ۷۰ میں سے ایک حصہ ہے۔[1] لیکن امام منذری رحمۃ اللہ علیہ شاید اس طرف نہیں گئے کہ یہ عرصہ سے متعلق نہیں بلکہ علم نبوت میں سے چھیالیسواں حصہ مراد ہے۔[2] اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں ، قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب کا تفصیلی تذکرہ ہے:
﴿ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْيَ قَالَ یٰبُنَيَّ إنِّيْ أرَی فِيْ الْمَنَامِ أنِّيْ أذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰأبَتِ افْعَلْ مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُنِیْ إنْ شَائَ اﷲُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ فَلَمَّا أسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ وَنَادَیْنٰہُ أنْ یّٰاِبْرَاھِیْمَ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤیَا اِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمْحِسِنِیْنَ﴾[3]
’’پھر جب وہ (بچہ) اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے، تو اس (ابراہیم علیہ السلام) نے کہا: میرے پیارے بچے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ اب تو بتا کہ تیری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا کہ اَبّا! جو حکم ہوا ہے، اسے بجا لایئے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ غرض جب دونوں مطیع ہوگئے اور اس (باپ) نے اس (بیٹے) کو پیشانی کے بل گرا دیا۔ تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم! یقینا تو نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا، بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔‘‘
اور اسی خواب کو بنیاد بنا کر اُنہوں نے اپنے فرزند ِگرامی اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے اسے اپنے ربّ کا حکم قرار دیا اور نبی کو بذریعہ وحی ہی حکم دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ابراہیم علیہ السلام کے خواب کو وحی قرار دینے پر نکیر فرمانے