کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 57
خواب ایک حقیقت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب وحی ہوتا ہے اور اس کی صحیح تعبیر ایک مبارک علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیا، پھر ان کے متبعین کو دیتا ہے۔ خواب کو عربی میں ’رؤیا‘ کہتے ہیں اور حدیث میں رؤیا کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔[1] خواب کے لئے ایک لفظ حُلُم بھی بیان کیا جاتا ہے جس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔[2] رؤیا کو ’رؤیا صالحہ‘ اور حلم کو ’رؤیا السوئ‘ بھی کہا جاتا ہے۔[3] خوابوں کی ایک تیسری قسم بھی بتائی جاتی ہے جو پراگندہ خیالات پر مبنی ہوتے ہیں ۔ حدیث میں اس کی تعبیر ’خودکلامی‘ سے کی گئی ہے۔[4] برے اور ڈراؤنے خواب شیطانی ہوتے ہیں، ان کے نظر آنے پر ٭ بائیں کندھے کی طرف نَفث یعنی تھو تھو کرنا۔ ٭ تعوذ یعنی أعوذ باﷲ من الشیطن الرجیم پڑھنا اور
٭ پہلو بدل لینا سنت ہے۔[5]
ایسے خوابوں کو بزبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ’نیند میں شیطان کی تفریح‘ قرار دیا گیا ہے۔[6] لہٰذا ان خوابوں کا کسی دوسرے کے سامنے اظہار کرنے اور ان کی تعبیر کروانے سے منع فرمایا گیا ہے۔[7]جب کہ رؤیا صالحہ کو مُبَشِّرَات[8]قرار دیا گیا اور ان کی تعبیر کروانے کو پسند کیا گیا۔ البتہ خواب ہمیشہ اپنے دوست یعنی خیرخواہ یا نیک مخلص عالم سے ہی بیان کرنا چاہئے۔[9]صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پسند کرتے تھے کہ وہ رؤیا صالحہ دیکھیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعبیر کروا سکیں ۔[10]
یہ درست ہے کہ رؤیا صالحہ نبوت کا حصہ ہے لیکن کتنے فیصد؟ اس میں مختلف احادیث میں مختلف تعداد آتی ہے: چھیالیس فیصد (%۴۶)[11]،پینتالیس فیصد (%۴۵)[12]اور ایک حدیث میں ستر (۷۰) اجزاے نبوت میں محض ایک جز کو رؤیاصالحہ قرار دیا گیا ہے۔[13] سب