کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 48
’فن جرح و تعدیل‘ کا عقلی جائزہ
جرح و تعدیل اور رجال کا علم مضبوط بنیادوں پر قائم ہے جس کی ایک ٹھوس نشانی یہ ہے کہ صحاحِ ستہ کے اکثر رواۃ کی ائمہ نقد کے اتفاق کے ساتھ حیثیت متعین ہوتی ہے۔ چنانچہ صحاحِ ستہ کے اکثر راوی خواہثقہ ہیں یا ضعیف ،ائمہ جرح و تعدیل کے اتفاق کے ساتھ ہیں جیسا کہ اسماء الرجال کی فنی کتب کے استقراء سے ثابت ہے۔
بعض لوگوں کے نزدیک فن جرح و تعدیل ایک انتہائی کمزور اورناقابل اعتبار علم ہے۔ وہ جرح و تعدیل کے ذریعے ہونے والے تمام اسماء الرجال کو شکوک و اوہام کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی منقولات کی جانچ پرکھ کو بھی قابل اعتنا نہیں جانتے۔[1] ایسے لوگوں کا رویہ مضبوط علمی بنیادوں پر قائم نہیں ۔
جرح و تعدیل پر اعتراضات
بعض لوگوں کے نزدیک راویوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔یہ راوی مختلف علاقوں اور مختلف زمانوں میں پھیلے ہوئے تھے، ان کے کوائف جمع کرنا مشکل تھا اور پھر اسماء الرجال کے ماہرین براہِ راست ان راویوں سے نہ مل سکے بلکہ ان راویوں کے متعلق مختلف عوام و خواص سے معلومات اکٹھی کرتے تھے۔ یہ سادہ طریقہ کا ر اس قدر کمزور تھا کہ راویوں کی حیثیت متعین کرنے میں اکثر طور پر اسماء الرجال کے ماہرین کا آپس میں اختلاف ہوجاتا تھا اور کبھی تعصب کی وجہ سے لاشعوری طور پر افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے تھے۔
(مبادیٔ تدبر حدیث از امین احسن اصلاحی، باب۶ :’سند کی عظمت اور اس کے بعض کمزور پہلو‘)
جوابات:یہ تمام دعویٰ جات سرسری مطالعہ کا نتیجہ ہیں اور معترض کی فن حدیث اور اسماء الرجال میں عدمِ رسوخ کی علامت ہیں ۔
٭ یہ کہنا غلط ہے کہ ائمۂ نقد نے رجال کے حالات کے اَوصاف کا علم عوام سے اکٹھا کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ائمہ نقد یا تو براہِ راست رواۃ سے ملتے تھے یا اُن خواص سے معلومات اکٹھی