کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 47
ونقاد ائمہ حدیث نے آپس میں ایک دوسرے کو بہت تلقین کی ہیں ۔ اس دور میں حافظہ سے متعلق، محدثین کی علمی و فکری چہل پہل کو معلوم کرنے کے لئے امام رامہرمزی (۲۶۰ تا۳۶۰) کی کتاب سب سے زیادہ مفید ہے۔ یہ کتاب اُصولِ حدیث کی قدیم ترین کتاب ہے اور قدیم ائمہ رواۃ ِحدیث کے اقوال، براہِ راست ذاتی سند سے پیش کرتی ہے۔ (تفصیل کیلئے: المحدث الفاصل از امام رامہرمزی اور الکفایہ فی أصول الروایہ از خطیب بغدادی) ٭ جدید علم نفسیات(Psychology)کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حافظے سے تعلق رکھنے والے مسائل کبھی تو یقین کافائدہ دیتے ہیں ، کبھی ظنِ غالب کا، کبھی ترددّ کا اور کبھی اوہام کا۔ علم نفسیات کے نزدیک تکرارِ فعل، اوّلیت ِفعل، تأثر ِفعل ، تأثر کی شدت، تازگی اور اُصول دلچسپی کی بنیادوں پر حفظ، عین یقین یا تقریباً یقین کا فائدہ دیتا ہے۔ مثلاً تکرارِ فعل کی مثال میں روز صبح اُٹھ کرمسواک کرتا ہوں اوّلیت ِفعل کی مثال میری آنکھوں کا دیکھا ہوا برفباری کا پہلا منظر تاثر فعل اور اسکی شدت کی مثال یہ بات کہ کل میرے ہمسائے کے گھر میں بجلی گری فعل کے تازہ ہونے کی مثال یہ بات کہ ایک منٹ پہلے میں کرسی پربیٹھا تھا۔ یہ تمام بیانات قرائن کی بنیاد پر اس قدر مضبوط ہیں کہ حفظ کے ساتھ تعلق کے باوجود یقین کا فائدہ دیتے ہیں اور ان کاانکار کرنے والابے عقل اور احمق کہلائے گا۔ (تفصیل کے لئے : ’نفسیات‘ از ڈاکٹر سی اے قادر؛ ’نفسیات‘ کرامت حسین ؛ ’ نفسیات‘ برائے بی اے از ٹی ایم یوسف … مباحث ِحافظہMemory ) ٭ محدثین کرام بھی حفظ کی ان بنیادوں پراس قدر مضبوط تھے کہ ان کی حفظ شدہ چیز یقین کے قریب قریب علم کا فائدہ دیتی ہے مثلاً محدثین کی روایات کا اکثر حصہ مشاہدہ، عمل، تجربہ، مشق اور تکرارِ فعل سے تعلق رکھتا ہے اور ایسی چیز کبھی نہیں بھولی جاسکتی اور اسی طرح محدثین نے علم حدیث کو ایک شوقیہ تفریح کے طور پر اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے لئے زندگیاں وقف کردیں ، دن رات کے اکثر اوقات علم الحدیث میں گزارے۔ ایسے فنی ماہرین اپنے فن کی کسی ادنیٰ یا اعلیٰ بات سے غافل نہیں رہ سکتے۔