کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 46
الثبوت ہو دوسروں کی متابعت سے ان کی کمزوری دور ہوجاتی ہے۔
(تفصیل کے لئے : تحفۃ الاشراف فی معرفۃ الاطراف از ابن حجر عسقلانی؛ تقریب التہذیب از ابن حجر)
سند ؛ رواۃ کا حفظ اور معرفت ِحفظ کا عقلی جائزہ
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رواۃ کے حافظے کو پہچاننا ناممکن ہے لیکن یہ دعویٰ باطل ہے، کیونکہ اہلِ فن کے نزدیک حافظے کی پہچان کبھی مشکل نہیں رہی، شرط یہ ہے کہ
حافظے کے لئے کوئی نہ کوئی میزان ہو مثلاً حفاظِ قرآن کے لئے میزان قرآن ہے، اسی طرح سے قرونِ اولیٰ میں رواۃ کے حافظے کی پہچان کے لئے ان سے ائمہ رواۃ کی مروی اَحادیث تھیں ۔ چنانچہ محدثین کا اتفاق ہے کہ جو راوی روایت کرتے وقت برترثقات راویوں کی مخالفت کرتا ہو، اس کی روایت ناقابل قبول ہے۔ چنانچہ مخالفۃ الثقات حفظ کی پہچان کا پہلا میزان ہے۔ اور حفظ کی پہچان کا دوسرا میزان راوی کا اعتماد ہے کہ راوی روایت کرتے وقت اوہام ، تردّد یاشکوک کا شکار نہ ہو۔
’حفظ‘ ظن یا یقین کا موجب؛جدیدعلم نفسیات (Psychology)کی روشنی میں
٭ ابتدا میں عموماً علم منقولات کا تعلق سراسر حفظ اور یادداشت سے تھا۔ حفظ ایک غیر حسی اور غیرمادّی چیز ہے، لیکن محدثین نے حفظ کی صلاحیت کو ایک مکمل فن بنا دیا۔چنانچہ مختلف محدثین، ائمہ کرام، رواۃ ِ حدیث سے یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ وہ حدیث کی یادداشت کے لئے آٹھ باتوں کا اہتمام کرتے تھے:
1. سماع کے وقت چستی اور ہوشیاری 2. کتابت
3. مقابلہ و اِعادہ 4. مذاکرہ
5. تعمد و تحفظ 6. باہمی سوال و جواب
7. ناقلین پر غوروخوض 8. روایت پر تفقہ(معنوی غوروفکر)
اِن آٹھ اُمور کے ساتھ حفظ شدہ چیز تقریباً یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
٭ حفظ کے درج بالا آٹھ اُمور کے بارے میں قرنِ اوّل و قرنِ ثانی میں رواۃ ِ حدیث