کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 45
٭ محدثین نے علم منقولات کی جانچ پرکھ کے لئے جو اُصول وضع کئے، ان میں سند و متن دونوں کی جانچ پرکھ شامل ہے۔ چنانچہ محدثین کا اتفاق ہے کہ صحیح الاسناد حدیث اس وقت تک قابلِ قبول نہیں جب تک اس کا متن بھی شذوذ و علل سے پاک نہ ہو۔
سند؛ رواۃ کے اوصاف اور معرفت کا عقلی جائزہ
٭ سند میں محدثین ہر ہر راوی کے اوصاف اور باہمی ملاقات کا جائزہ لیتے تھے، محدثین نے راویوں کے اوصاف اس عقلی انداز میں مقرر کئے کہ ان میں کسی قسم کا اضافہ یا کمی ممکن نہیں ۔ مثلاً راوی کا مسلمان ہونا اور ساری زندگی میں ایک دفعہ بھی حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جھوٹ ثابت نہ ہونا اور نہ روزمرہ زندگی میں کوئی جھوٹ ثابت ہونا؛اور نہ ہی وہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا ہو اور نہ وہ صغائر پر اصرار کرتا ہو اور نہ وہ حدیث کے اَخذ و تحمل پر جسمانی اور ذہنی سستی کرتا ہو اور نہ وہ کسی اعتقادی بدعت کا شکار ہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ اوصاف و شرائط ایسی ہیں جس پر مزید اضافہ عقلاً ناممکن ہے۔
٭ بعض لوگ کہتے ہیں کہ راویوں کے اوصاف کی پہچان ناممکن ہے، لیکن یہ دعویٰ غلط ہے۔ کیونکہ محدثین کے نزدیک
٭ مجہول العین، مجہول الحال اور مستور راوی ناقابل قبول ہوتا ہے
٭ ہر راوی کی جرح و تعدیل معاصر اساتذہ اور تلامذہ کرتے ہیں
٭ مسلمان صدیوں سے ثقہ قاضی ، ثقہ حاکم، ثقہ شاہد، ثقہ امام، ثقہ عالم، ثقہ داعی کی پہچان غیر ثقہ کی نسبت سے کرتے آئے ہیں ۔
٭ اور راوی کی اپنی پہچان کے اعتبار سے تین قسمیں ہیں :
٭ بعض وہ جن کی عدالت تواتر سے ثابت ہے
٭ بعض وہ جن کی عدالت مشہور اور مستفیض ہے
٭ بعض وہ جن کی عدالت صرف ایک یا دو ائمۂ نقد سے ثابت ہے۔
٭ عموماً اکثر احادیث کی اسناد کا بڑا حصہ ’متواتر العدالہ‘ راویوں پر مشتمل ہوتا ہے جیسے کثیر الروایہ صحابہ و تابعین و تبع تابعین اور ائمہ کرام رحمہم اللہ اور جن رواۃ کی عدالت مشکوک یا قلیل