کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 44
بالاتفاق حسن ہوتی ہیں یا بالاتفاق ضعیف ہوتی ہیں یا بالاتفاق مردود ہوتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھار بعض معقول وجوہات کی بنا پر حدیث کی حیثیت متعین کرنے میں اختلاف ہوجاتا ہے، لیکن اختلا ف میں حیرت انگیز بعد نہیں ہوتا ہے بلکہ نتیجہ باہمی طور پر قریب قریب (Precise)ہوتا ہے مثلاً یہ ممکن نہیں کہ کسی حدیث کو کوئی محدث ’موضوع‘ قرار دے اور دوسرا محدث اسی حدیث کو اوّل درجہ کی صحیح قرار دے اور یہ چیز بھی اسلامی علم منقولات کے سائنٹفک ہونے کی دلیل ہے۔
٭ اسلامی منقولات میں ضعف دو قسم کا ہوتا ہے:
۱۔مشخص و متعین ضعف اور ۲۔غیر مشخص و غیر متعین ضعف
متعین ضعف وہ ہے جس کو معلوم کیا جاسکے اور جس کی نشاندہی کی جاسکے مثلاً اتصال کا نہ ہونا، راوی کا ضبط کمزور ہونا وغیرہ جبکہ اس کے مقابلے میں ایک ضعف وہ ہے جو متعین نہیں بلکہ اس کو فرض کیا جاتا ہے کہ تمام تر صحت کے باوجود ممکن ہے، کسی راوی سے غلطی ہوگئی ہو۔
٭ محدثین کا علم منقولات اس قدر مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے کہ کسی بھی صحیح قرار دی گئی حدیث میں کوئی مشخص یا معین ضعف تلاش کرنا ممکن نہیں ہوتا،کیونکہ محدثین انسانی بساط کے مطابق تمام انواعِ ضعف کی تلاش کے بعد حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔ ایسی حدیث یقین کے قریب قریب درجہ کا فائدہ دیتی ہے۔
٭ البتہ اس میں نادانستگی یا لا علمی میں کسی نہ کسی عقلی خطا کا امکان ہوتا ہے، لیکن یہ امکان صحت کے بیسیوں پہلوؤں کے مقابلہ میں قابلِ التفات نہیں ہوتا،یہاں پر خطا صرف ممکن ہوتی ہے، واجب یا راجح نہیں ہوتی۔[1]
٭ ایسی عقلی خطا کی وجہ سے حدیث کو ردّ کرنا جائز تھا، اگر صحابہ کا یہ طرزِ عمل نہ ہوتاکہ وہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک دوسرے سے احادیث سنتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ (صحابہ کے طرزِ عمل کو تفصیل سے دیکھنے کے لئے: الرسالۃ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر کتب اُصولِ فقہ )
٭ عقلی طور پر بھی مذکورہ وجوہات کی بنا پر حدیث کو ردّ کرنا راجح یا واجب نہیں ۔
محدثین کے نزدیک علم منقولات کی جانچ پرکھ کے اُصول