کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 42
مکان میں تجربہ کیا جائے اور چاہے جس ایجابی یا منفی جذبے کے ساتھ کیا جائے۔
(سائنس، فلسفہ اور مذہب کے اُصولی فرق کے لئے دیکھئے: مقدمہ کتاب’ فلسفہ جدید اور اس کے دبستان‘ از ڈاکٹر سی اے قادر و دیگر )
٭ منقولات کی جانچ پرکھ کا علم (اُصولِ حدیث) اس حیثیت سے ایک سائنس ہے کہ یہ سائنس کی طرح اپنے موضوع پر ایک کامل، منضبط، جامع مانع اور منظم علم ہے جو ہمیں ایسے کلیات (فارمولے) بتلاتا ہے جن کے ذریعے ہم منقولات کی علمی یا سندی حیثیت متعین کرسکتے ہیں ۔
اُصولِ حدیث کا مل ومنضبط، جامع مانع اور منظم علم اس طرح ہے کہ اس کے مشمولہ تمام قواعد میں مزید اضافہ انتہائی مشکل ہے۔ مثلاً راوی کے ضعف کے اسباب، روایت کے ضعف کے اسباب ، روایت کی تقویت کے اسباب، اَخذ و تحمل کی شرائط، ضعیف احادیث کی اقسام اور صحیح احادیث کے درجات وغیرہ۔
٭ اُصولِ حدیث ایسے کلیات پر مشتمل ہے جو منقولات کی عقلی حیثیت متعین کرتے ہیں ۔ کلیات سے مراد ایسے جامع مانع عقلی قوانین جن کی روشنی میں تحقیق کرنے سے ایک جیسے نتائج اَخذ ہوں ۔ان قوانین کی روشنی میں کوئی بھی شخص تحقیق کرکے علم منقولات کی حیثیت متعین کرنے میں اپنی رائے پیش کرسکتا ہے اور اُصول و قواعد کی روشنی میں دیگر محدثین کے فیصلوں سے اختلاف کرسکتا ہے۔
٭ یاد رہے کہ اُصولِ حدیث منقولات کی عقلی حیثیت متعین کرتا ہے مثلاً حدیث کا متواتر، مشہور، غریب، موضوع،مرسل، منقطع، معضل، موقوف یا مقطوع ہونا وغیرہ۔ یہ سب منقولات کی فنی حیثیت کا اظہار ہے اور ان پر عمل کا حکم ایک عقلی حکم ہے۔ مثلاً موضوع، معضل اور منقطع حدیث پر عمل کرنا عقلاً درست نہیں ، کیونکہ یہ ضعیف احادیث کی شاخیں ہیں اور ضعیف حدیث میں خبر کا صدق و ثبوت، اس کے کذب/ عدم ثبوت سے راجح نہیں ہوتا وغیرہ۔ محدثین مسلم فقیہ ہونے کی حیثیت سے منقولات پر عمل کی شرعی حیثیت بھی متعین کرتے ہیں ، لیکن ان کی اُصولِ حدیث کی کتب مجرد عقلیت کا بھی شاہکار ہیں ۔
البتہ بعض اوقات، منقولات کی فنی حیثیت متعین ہونے کے بعد ان پر عمل کی عقلی و شرعی