کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 41
چنانچہ خبر صحیح ’یقین‘ کا، خبر حسن ’ظن غالب‘ کا اور خبر ضعیف ’تردّد یا شک‘ کا فائدہ دیتی ہے۔ ٭ ان اُمور میں کوئی اختلاف نہیں ، اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ خبر واحد عمل کو واجب قرار دیتی ہے … یا نہیں ؟ ٭ اکثر عقلا بشمول معتزلہ وغیرہ کے نزدیک عقلی طور پر خبر ِواحد عمل کو جائز قرار دیتی ہے، واجب نہیں یعنی خبر واحد سے حاصل شدہ معلومات پر عمل کرنا جمہور عقلا کے نزدیک ناجائز نہیں بلکہ جائز ہے، البتہ وہ اس کو واجب نہیں مانتے۔ ٭ جبکہ جملہ اہل السنہ والجماعہ کے نزدیک از روئے سماع خبرواحد عمل کو واجب قرار دیتی ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: الاحکام از امام آمدی ج۴، أبحاث المتواتر والخبر الواحد المحصول؛ امام رازی ج۳/ ص۹۰۴؛ ارشاد الفحول از امام شوکانی ج۱/ ص۱۶۷ و دیگر کتب ِاُصولِ فقہ ) ٭ بعض نئے دانشور احادیث کے ذریعے دین میں کوئی مستقل بالذات اضافہ کو سرے سے جائز نہیں سمجھتے، البتہ اگر احادیث قرآن کی شرح کے طور پر سمجھ میں آئیں تو پھر ان پر عمل ہوسکتا ہے۔ ان کا یہ نظریہ جمہور عقلا اور سماع دونوں کے خلاف ہے۔کیونکہ جمہور عقلا نے خبر واحد سے تعبد (مستقل بالذات و براہِ راست) کو کبھی بھی ناجائز قرار نہیں دیا، البتہ اس کا وجوب عقلا کے نزدیک محلِ اختلاف رہا ہے۔ اور اسی طرح جملہ اہل سنت ہمیشہ خبر واحد سے دین میں مستقل بالذات اضافہ کے وجوب کے بھی قائل رہے ہیں ۔ (جدید دانشوروں کے مطالعہ کے لئے:دیکھئے :میزان از جاوید احمد غامدی: ص۱۰ نیز اُن کے حدیث و سنت سے متعلق آڈیو، وڈیو لیکچرز) ٭ محدثین عام طور پر ہر ضعیف اور موضوع حدیث سے اظہارِ براء ت[1] کرتے ہیں اور صرف صحیح یا حسن حدیث کو ہی واجب ِقبول قرار دیتے ہیں ۔ تصحیح وتضعیف ِحدیث؛ ایک سائنس ٭ محدثین نے علم منقولات کی جانچ پرکھ کے لئے ایسے اُصول مقرر کئے ہیں جو ایک سائنس کا درجہ رکھتے ہیں ۔کیونکہ سائنس ایسے معروضی کلیات بتاتی ہے جو تجربہ کے وقت برابر طور پر ایک جیسا نتیجہ ظاہر کرتے ہیں ، چاہے تجربہ کرنے والا کوئی ہو اور چاہے جس زمان اور
[1] باب نمبر ۱۳، ح:۷۰۰۴ [2] ایضاً: ۷۰۱۸ [3] صحیح مسلم:۲۲۶۳ [4] سورہ یوسف : ۳۷ [5] فتح الباری:۷/۴۳۲ [6] فتح الباری: ۱۱/۳۵۳ [7] صحیح مسلم :۵۹۱۹