کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 40
میں فقط مسلمانوں نے ہی علم منقولات کو فنی اور علمی بنیادوں پر ٹھوس شکل دی ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی منقولات میں اگرچہ قرآنِ مجید بھی شامل ہے، لیکن ہماری گفتگو فقط احادیث تک محدود ہوگی کیونکہ قرآنِ مجید عام طور پر محل اختلاف نہیں ۔[1]
علم منقولات / حدیث کے معتبر ہونے کا عقلی جائزہ (اہل عقل ومنطق کے ہاں )
اس حیثیت سے کہ منقولات کی نسبت ہدایت ِالٰہی کی طرف کی جاتی ہے، اس میں کسی داخلی غلطی اور عیب کا ہونا ناممکن ہے اور یہ علم دنیاوی اور اُخروی کامیابی کا سب سے اعلیٰ علم ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ منقولات ہم تک معتبر ذرائع سے پہنچیں ۔
منقولات کی قابلِ اعتبار ہونے کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں :
1. متواترات اور 2. اخبارِ احاد
متواترات میں قول کی نسبت قائل کی طرف یقین کے درجے پرہوتی ہے، چنانچہ اس پر اہل عقل اور روایت پسندوں کا اتفاق ہے۔ البتہ چند عقلا کا اس چیز میں ضرور اختلاف ہے کہ یہ یقین علم ضروری ہے یا نظری؟ جمہور عقلا کے نزدیک یہ علم یقینی ضروری ہے جب کہ بعض اسے نظری کہتے ہیں ۔
(تفصیل کے لئے دیکھئے :’برہان‘ کے مباحث، تفہیم المنطق از ڈاکٹر عبداللہ عباسی ندوی،تسہیل المنطق،عربی از عبدالکریم بن مراد اَثری، نیز دیگر منطق و اُصولِ فقہ کی کتب)
٭ تواتر کی کئی اقسام ہیں : تواتر الطبقۃ جیسے قرآنِ کریم
تواتر ِلفظی جیسے (( من کذب عليَّ متعمداً… الخ))
تواتر ِمعنوی یا تواتر القدر المشترک جیسے پانچ نمازیں ، صلوٰۃ العید، قیامِ رمضان
تواتر ِعملی (تعامل) جیسے پانچ نمازوں کی رکعات اور نصابِ زکوٰۃ وغیرہ
٭ تواتر اپنی تمام صورتوں میں علم یقینی ضروری کا فائدہ دیتا ہے، لیکن قدرِ مشترک کا تواتر کبھی کبھار علم یقینی نظری کا فائدہ بھی دیتا ہے۔ اخبارِ آحاد میں قول کی نسبت قائل کی طرف کبھی یقین کے قریب قریب ہوتی ہے اور کبھی ظنِ غالب میں ، کبھی تردّد میں اور کبھی شک میں ۔
[1] ایضاً:۶۹۹۰