کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 39
حدیث وسنت محمد زکریا الزکی[1] علم منقولات فن محدثین کا جائزہ عقل، سائنس اور جدید علم نفسیات کی روشنی میں پیش نظر مضمون میں فاضل مقالہ نگار نے بالکل نئے ڈھنگ میں علم اُصولِ حدیث کو عین عقلی تقاضوں کے مطابق درست ثابت کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا واجب الاتباع ہونا ایک ایمانی حقیقت اور دین اسلام کا اساسی تقاضاہے، لیکن ایک تاریخی حقیقت کے طورپر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامینِ مقدسہ کو اُمت ِاسلامیہ درست طورپر محفوظ کرنے میں کامیاب رہی ہے یا نہیں ؟ اس مضمون میں اسی پہلو کو موضوع بحث بناتے ہوئے ثابت کیا گیاہے کہ صدیوں کے انسانی ارتقا کے باوجود آج بھی کسی بات کو درست طورپرمحفوظ کرنے میں دورِ حاضر کے محققین اور جدید سائنس وعقل کوئی اضافہ کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ فی زمانہ انکارِ حدیث کے متعدد رجحانات کے پس منظر میں مصنف کی یہ تحلیلی وتجزیاتی کاوش لائق ستائش ہے۔ ح م ’حدیث‘ سے مراد حدیث سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اقوال، افعال، تقریرات اور تصویبات ہیں ۔ چند جدیددانشوروں کے علاوہ تمام اُصولیین کے نزدیک دلیلِ شرعی ہونے کے اعتبار سے حدیث اور سنت کے لفظ باہم مترادف ہیں ۔ البتہ جب یہ لفظ ایک دوسرے کے مقابلے میں آئیں توسنت سے مراد اسوہ حسنہ او رحدیث اس کی روایت ہوتی ہے،گویا شریعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (قول وفعل وتصویب) ہوا تو حدیث اسی عمل کا بیان۔ کبھی کبھار سنت کا لفظ بدعت یا رائے کے مقابلہ میں بھی بولا جاتا ہے۔ (دیکھئے: الوجیز في أصول الفقہ از ڈاکٹر عبدالکریم زیدان: ص۱۶۱، جبکہ متجددین کے تصورِ حدیث کے لئے دیکھئے: ’میزان‘ از جاوید احمد غامدی: ص۱۰ اور ’مبادیٔ تدبر حدیث‘از مولانا امین احسن اصلاحی: ص۲۸) ہم یہاں اَحادیث کے لئے ’منقولات‘ کا لفظ استعمال کریں گے تاکہ ہماری گفتگو زیادہ معروضی ہوسکے۔ احادیث کے لئے منقولات کا لفظ اس لئے بھی منتخب کیا گیا ہے کہ ادیانِ عالم
[1] صحیح بخاری :۱۱۵ [2] ایضاً:۳۵۹۸ [3] ایضاً: ۷۰۲۴