کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 38
الٰہی اساس میں پوشیدہ ہے جس میں مجرم اللہ کے ڈر اور آخرت میں پکڑ کے بالمقابل دنیا میں سزا پانے کو ترجیح دیتا ہے، اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ لیکن افسوس کہ تادمِ تحریر صوفی محمد کو امن قائم کر دینے کے باوجود شرعی نظامِ عدل کا درست نفاذ نہ ہونے کی شکایت ہے، جس کے نتیجے میں اُنہوں نے ۲۵/ مارچ کو حکومت کو اپنے معاہدۂ امن سے دست برداری کی وارننگ بھی دے دی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نظامِ عدل ریگولیشن کی صدر سے منظوری سے قبل عبوری طور پر سوات، مینگورہ اور وزیرستان میں شرعی قاضی لوگوں کے فوجداری فیصلے نمٹا رہے ہیں ، دنوں میں اُنہوں نے کئی تنازعات حل کر دیئے ہیں ، جبکہ سول عدالتوں میں تاحال پرانا نظام ہی جاری ہے، جن میں شرعی قاضی ابھی تک اپنا کام شروع نہیں کر سکے۔ بہ یک دو متوازی نظاموں کا وجود اور شرعی عدالتوں کی مستند قانونی حیثیت میں تاخیر و تعطل وہ بنیادی اعتراضات ہیں جن کا خاتمہ اشد ضروری ہے۔ صوفی محمد آج اپنی نہیں بلکہ اسلام اور پاکستان کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ، دوسری طرف پاکستان کے عوام عدلیہ کی ایک اور جنگ میں مگن ہیں ۔ مغربی اِدارے بڑی باریک بینی سے پاکستانی قوم کے رجحانات کا جائزہ لے رہے اور اس پر اپنے تبصرے پیش کر رہے ہیں جبکہ تاریخ بڑے غور سے سب کچھ قلم بند کر رہی ہے۔۔۔۔۔!! ایک طرف پوری قوم آزاد عدلیہ کی طرف بڑھ رہی اور اس سے اپنی اُمیدیں وابستہ کر رہی ہے اور دوسری طرف کچھ افراد اس نظامِ عدل سے اظہارِ براءت کر کے اللہ کے میزانِ عدل کو قائم کرنے میں اپنی جدوجہد صرف کر رہے ہیں ۔ ایک نظامِ عدل وہ ہے جو انگریز کا ترکہ و ورثہ، جس کا بیشتر حصہ مشترکہ ہندوستان کے دور کا تدوین شدہ ہے اور دوسری طرف وہ شرعی عدل جس کے حصول اور انگریزی عدل کے زاویوں سے نجات پانے کے لئے مستقل وطن وجود میں لایا گیا۔ دیکھئے ایک مسلمان عدل کی کس میزان کو ترجیح دیتا ہے؟ اور کس عدل کا قیام ارضِ وطن میں امن کو استحکام و استقرار نصیب کرتا ہے۔۔۔۔؟ (حافظ حسن مدنی)
[1] صحیح بخاری:۳۵۲۲ [2] ایضاً:۳۶۲۲