کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 37
صوفی محمد نے کوئی چھوٹی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ جس ملک میں پوری ریاستی قوت پولیس و سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں دل قائم نہیں کر سکی، وہاں ایک فرد محض اپنے بھرم و اعتماد کے بل بوتے پر معاشرے کا سب سے بہترین تحفہ ’امن‘ اپنی قوم کو پیش کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اس کے اس عظیم ہدف کے بالمقابل امریکہ، بھارت اور افغانستان تینوں کی بھرپور کوشش ہو گی کہ عدل قائم نہ ہونے پائے اور اسلام کا پیغامِ امن دنیا کے سامنے نہ آسکے، سرحدی علاقوں میں یہ لڑائی جاری رہے تاکہ جسدِوطن مزید زخمی ہو کر دشمنوں کی آماجگاہ بن جائے۔ نہ تو مولانا صوفی محمد کا مطالبہ غلط ہے اور نہ اس کی موجودہ حکمتِ عملی؛ آئین کی رو سے بھی اس معاہدہ کی واضح گنجائش موجود ہے کیونکہ ’پاٹا‘ کے یہ آزاد قبائلی علاقے صوبائی حکومت کے زیر انتظام آتے ہیں ، قومی اسمبلی کو ان سے کوئی سروکار نہیں بلکہ صدر براہِ راست ان کے انتظامات کی منظوری دیتے ہیں ۔ علاوہ ازیں دنیا بھر بالخصوص مشرقی یورپ میں بھی اس نوعیت کی جیوری کی قانونی عدالتیں موجود ہوتی ہیں ، جہاں فریقین باہمی متفقہ قانون کی روشنی میں اپنے فیصلے کرواتے ہیں ۔ امریکہ میں یہودی عدالتیں اسی قانون کے تحت کام کر رہی ہیں ۔ لیکن اگر اس نفاذِ عدل ریگولیشن پر صدر کے دستخط اور دنیا میں اس کی پذیرائی میں کوئی تاخیر ہے تو اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں کہ اسلام کا کوئی بھی نظام دنیا کو قبول نہیں گویا اجتماعیت کے کسی بھی میدان میں مسلمانوں کا کامیاب ہونا ملتِ کفر کو پریشان کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس سے قبل افغانستان میں طالبان کی چند سالہ حکومت کے دوران بھی شرعی نظامِ عدل کے جزوی قیام نے عسکریت کے شکار اس خطہ ارضی کو چند ماہ میں ایسا امن و سکون عطا کیا تھا جس کی نظیر بعد کے سالوں میں کبھی نہیں میسر آسکی۔ مولانا صوفی محمد کی یہ منطق بالکل درست ہے کہ نظامِ عدل سے شریعت کی طرف بڑھنے کا آغاز کیا جائے۔ اس کے بعد دیگر نظام ہائے معاشرت کی طرف لمحہ بہ لمحہ پیش قدمی کی جائے۔ ہمارا یہ ایقان ہے کہ اگر آج اُنہیں شرعی عدل کے ادارے قائم کرنے کی اجازت مل گئی تو امن و امان چند روز میں اس خطہ کا مقدر ہو گا، جیسا کہ چند روز میں اس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں ، کیونکہ شرعی نظامِ عدل کی اصل قوت ظاہری ڈھانچے کی بجائے اس کی روحانی اور
[1] سورہ العلق :۱تا۵ [2] سورہ الاحزاب : ۳۶،۳۷ [3] صحیح بخاری : ۷۰۱۱