کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 36
عوام الناس کا مطالبہ کیوں نہیں رہا جنہوں نے اس مقصد کے لئے تاریخ کی عظیم ترین ہجرت اور لاکھوں قربانیاں دیں ، آج نفاذِ شریعت کا مطالبہ صرف چند دین داروں تک ہی کیوں محدود ہو چکا ہے اور پوری قوم نہ صرف اس اس مطالبے سے عملاً دستبردار ہو چکی ہے، بلکہ صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعت کو جن کا واحد مطالبہ شریعت کا قیام ہے اور اس کے بدلے وہ قیام امن کی ہر کوشش کرنے کو تیار ہیں ، قوم سے اجنبیت کی اذیت کیوں وصول ہو رہی ہے!؟
کہا گیا کہ ۱۵/ مارچ کے سیاسی لانگ مارچ کا نقشہ اس دور کے جذبہ و جنوں کی یاد تازہ کر رہا تھا جب ۱۹۷۷ء میں نظامِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک چلی اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن گئی۔ آج اسلام کا نعرہ تو ویسے ہی روشن خیالی کے دور سے گزرنے کے سبب قدامت کی علامت بن چکا ہے۔ اب اسلام کے لئے قوم میں یہ والہانہ جذبہ اور وابستگی کہاں !؟
ممکن ہے کہ بعض دانشور ماضی کی طرح اس فکری انحراف کو بھی دینی قیادت کے ذمے ڈال کر مطمئن ہو جائیں ، لیکن ہماری نظر میں قوم کی اس حالیہ ذہن سازی کے پیچھے بے خدا ذرائع ابلاغ کا سنگین کردار ہے۔ قوم چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں اس طرح کبھی شریک نہ ہوتی، اگر میڈیا اس کو ایک مشن بنا کر قوم کے ذہنوں پر سوار نہ کر دیتا۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: اسلام اجنبی آیا تھا اور عنقریب اجنبی ہو جائے گا اور اجنبیوں کے لئے خوشخبری ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید کا مصداق اس دور کے میڈیا کو قرار دیا جا سکتا ہے جس نے معاشرے میں اسلام کو اجنبی بنا چھوڑا ہے۔ لوگوں کو اسلام سے دور کرنے کے جرم میں ہمارا میڈیا برابر کا شریک ہے جس نے لوگوں کے فکر و نظر کے زاویے، رجحانات اور پسند و ناپسند کے معیار بدل ک رکھ دیئے ہیں ۔
لیکن اپنے مقصدِ زندگی اور شعورِ حیات سے بے اعتنائی کا گناہ صرف میڈیا پر ہی ڈال کر مطمئن نہیں ہوا جا سکتا جبکہ ہر مسلمان کے لئے اللہ کی کتاب میں اس کی منزل و ہدف اور فرض و منصب واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور کوئی مسلمان قیامت کے روز قرآنِ کریم میں اللہ کے ان واضح مطالبات کو دوسروں کے ذمے ڈال کر اپنا دامن نہیں بچا سکے گا۔ یاد رہے کہ قرآنِ کریم کا خطاب صرف علمائے دین سے نہیں بلکہ نبی اُمی کا کلمہ پڑھنے والے ہر شخص سے ہے!
[1] فتح الباری:۲/۱۰۴،۱۰۵