کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 35
تار ہو چکا ہے اور معاشرہ خرابیوں اور برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ انہی ظالمانہ نظاموں سے نجات کے لئے تو ہم نے شہادت سے لبریز اور قربانیوں سے بھرپور ولولہ انگیز ہجرت کی تھی۔ شریعت کے ہر میدان میں نفاذ کے وعدے کے ساتھ ہم نے ربِّ کریم سے طویل دعاؤں کے بعد وطن عزیز حاصل کیا تھا۔ افسوس کہ اسلام کو نافذ کرنے کا سنہرا خواب دکھا کر، لاکھوں قربانیوں سے حاصل کیا جانے والا وطن آج اپنی نظریاتی اَساس اور منزل کو ہی گم کر بیٹھا ہے۔ نصف صدی کے طویل عرصہ میں قومیں بدل گئیں ، تہذیبیں اور اَطوار تبدیل ہو گئے ہیں ، دنیا کا جغرافیہ اور سرحدیں کیا سے کیا ہو گئیں لیکن ہم اپنے وعدے کو ایفاء کرنے کی سمت معمولی پیش رفت بھی نہ کر سکے۔ ہمارا ہر قدم مزید پیچھے کی طرف ہی اُٹھتا رہا۔ ہمارے سیاسی حکمران اللہ کے دیئے نظامِ عدل اور اسلام کے وعدوں سے دل لگی کرتے کرتے قوم کو منزل سے اس قدر دور لے گئے کہ انسانوں کی وضع کردہ میزانِ دل بھی ہم سے روٹھ گی۔ یہ اللہ سے کئے وعدوں کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ ہے کہ اللہ کے نظام کی برکات تو ہمیں کیا حاصل ہوتیں ، انسانوں کے وضع کردہ ایک کمتر نظامِ انصاف کو بھی ہم نہ نبھا سکے، دنیا بھر میں ہمارے عدل کے ایوانوں کا مذاق اُڑایا گیا اور آخر کار قوم نے لانگ مارچ کے نتیجے میں اس عدل کی ایک ’علامتِ افتخار، کو بحال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آج 2009ء کا نوشہ دیوار یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو شرعی نظامِ عدل کے اساسی مقصد کو پانے کے لئے ایک بار پھر وقت کی حکومت سے بزورِ قوت مطالبہ کرنا پڑ رہا ہے۔ پہلے انگریز سامراج سے اس مقصد کے حصول لئے پوری قوم بر سر پیکار ہوئی، اور اب اسی قوم کا ایک حصہ انگریز سامراج کے ایجنٹ حکمرانوں سے اس نیک مقصد کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ فکر کا مقام ہے کہ شرعی نظامِ عدل کا مطالبہ اس قدر انمول کیوں ہو گیا کہ صرف اس ایک جائز مطالبے پر عسکریت پسند اپنے تمام ہتھیار پھینک دینے پر آمادہ ہو گئے!! ۲۰ برس کا سفر اور نشانِ منزل وہی کا وہی، پہلے انگریز سرکار سے شریعت کے نفاذ کے لئے علیحدہ وطن کا حصول اور لاکھوں کی ہجرت اور آج اس وطن میں نفاذِ اسلام کے لئے قوم کے اندر کتنی بڑی کشمکش! ہمیں من حیث القوم سوچنا چاہئے کہ کیا وہ ہے کہ آج اسلام کا یہ بنیادی مطالبہ ان تمام