کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 34
کے بغیر حقیقی اور دیرپا امن و امان کا قیام اور اطمینان و سکون کا وجود ناممکن ہے۔ فرد کی سب سے بڑی نعمت اطمینان و سکون اور معاشرے کی سب سے بڑی خوبی امن و امان ہے۔ فرد و معاشرے کے لئے یہی دو بنیادی اور حقیقی نعمتیں ہیں جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے نظام پر چلنے والوں فرمایا[1]ہے۔ ایک تازہ ترین شہادت ملاحظہ کیجئے کہ برطانوی ادارے کی حال ہی میں شائع ہونے والی سروے رپورٹ کے مطابق آج بھی سعودی عرب میں بسنے والا فرد دنیا بھر میں سب سے زیادہ مطمئن اور یہاں کا معاشرہ سب سے زیادہ پر امن تسلیم کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں فرد و معاشرے کا یہ امن و سکون صرف اور صرف نفاذِ اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی اللہ کا نظام محض ایمان و ایقان کی بنا پر ہی نہیں ، حقائق و وقائع کی روشنی میں اپنی مسلمہ افادیت پوری دنیا کے سامنے بیان کر رہا ہے تاکہ لوگوں پر اللہ کی حجت قائم و برقرار رہے!!
شرعی نظامِ عدل کی ان غیر معمولی خوبیوں کے باوصف آج ہماری قوم کا سیکولر نظامِ عدل پر یہ اعتماد اور اس کے لئے والہانہ جستجو فکر مندی کا باعث ہے۔ اس نظامِ عدل کی شکایت تو کوچہ دل سے گزرنے والا ہر فرد کرتا دکھائی دیتا ہے، جہاں کمرۂ عدالت میں سب لوگ مل کر عدل و انصاف کو چکمہ دینے کی کوشش کرتے ہیں ، انگریزی قانون کے لئے یہ نہایت عمدہ تمثیل خود برصغیر کے انگریز حکمران مٹکاف کی بیان کردہ ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے میزانِ عدل سے انصاف پانے کے لئے لوہے کے پاؤں اور سونے کے ہاتھ ہونے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ جہاں سے عدل اتنی تاخیر سے حاصل ہوتا ہے جب انسان دنیا سے سفر کر کی منوں مٹی کے یچے سو چکا ہوتا ہے۔
لا دین نظامِ عدل کے سایہ تلے 60 برس گزارنے کا نتیجہ یہ ہے کہ مادرِ طن کا ہر دامن تار
[1] البدایہ والنھایہ:۳/۶
[2] فتح الباری:۱/۳۱
[3] ایضاً
[4] صحیح بخاری: ۳
[5] ایضاً