کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 33
شرعی نامِ عدل کو متعصّبانہ نظر سے دیکھنا اور اسے وحشت و قدامت سے مطعون کرنا اُسی انسان کا رویہ ہو سکتا ہے جو جذبہ اور غیرتِ ایمانی سے تہی دامن ہونے کے ساتھ علم و دین سے بھی نا آشنا ہے!! اسلام کا نظامِ عقوبات اس ور میں حقائق کی میزان پر کامیاب ہونے والا مثالی نظامِ عدل ہے جو شریعت کے جملہ اساسی مقاصد کا محافظ و نگہبان ہے۔ اس کو محض سزا کے نقطہ نظر سے دیکھنے والے تنگ نظر ہیں کیونکہ قرآن نے شرعی سزاؤں کو معاشروں کے لئے آبِ حیات قرار دیا ہے۔ دراصل شرعی نظام عدل پر یہ الزام دو باہم متخالف رویوں کا عکاس ہے:
ایک طرف انسانوں کا بنایا ہوا نظامِ عدل ہے جو مجرم / ظالم کو انصاف فراہم کرتا ہے اور اس کے انسانی حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اس نظام کو مظلوم کے حقوق سے کوئی سروکار نہیں ، جس کو ظالم نے برباد کر کے رکھ دیا، بلکہ اسے صرف مجرم کے انسانی حقوق سے غرض ہے اور وہ اس کی سزائے موت حتیٰ کہ سنگین سزا کا بھی مخالف ہے، اور وہ اسے مجرم کے اعتبار سے وحشیانہ قرار دیتا ہے لیکن وقت نے یہ بتایا ہے کہ اس طرح کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے مہذب ترین ممالک میں جرائم کی بڑھتی شرح اس کی واضح دلیل ہے، جو ظالم سے ہمدردی اور مظلوم سے بے اعتنائی کا نتیجہ ہے!
دوسری طرف اللہ کا دیا ہوا نظامِ عدل ہے جو ظالم کی بجائے مظلوم کو انصاف دیتا اور اس کے حق میں مداخلت پر سزا عائد کرتا ہے۔ اس نظامِ عدل کو ظالم کی اہانت سے کوئی سروکار نہیں بلکہ جرم کو واقع ہونے سے روکنے اور مظلوم کی جائز اورداد رسی سے مطلب ہے۔ مجرم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کا تصورِ جرم و سزا اس کے لئے آلۂ سزا ہے اور اگر مظلوم کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شرعی سزائیں مظلوم حتیٰ کہ باقی تمام معاشرے کے لئے آلۂ حیات ہیں جس کے نتیجے میں لازماً مزید جرائم کا ارتکاب ناممکن ہو کر رہ جائے گا، یہی زاویۂ نظر قرآن نے بیان کیا ہے اور دورِ حاضر کے مشاہدات و تجربات اسی نظریے کی حقانیت کااثبات کر رہے ہیں ۔
سوات میں ہونے والے معاہدے کو ’معاہدہ امن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ امن و سلامتی شریعت اسلامیہ کا ہی طرۂ امتیاز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایمان اور عمل صالح کا ثمرہ اور اپنے خصوصی انعام کے طور پر ذِکر کیا ہے۔ ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اسلام
[1] سورۃ الفتح :۳۷
[2] سیرۃ ابن ہشام:۱/۲۳۶