کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 32
اس کے بالمقابل اُنہوں نے حکومت سے صرف ’فوری‘ اور ’شریعت کی میزان پر انصاف‘ کا مطالبہ پیش کیا ہے۔
٭ دونوں تحریکوں کی قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ ملک بھر کے باشعور اور دانشور طبقہ نے ان دونوں تحریکوں کے مطالبوں کی بھرپور حمایت کی ہے اور ان مراحل کو قومی تاریخ میں اہم سنگ میل قرار دیا ہے، اور ان سے بڑی اُمیدیں وابستہ کی ہیں ۔۔۔۔ گو کہ دونوں تحریکیں اپنے مفہوم و مدعا کے لحاظ سے ایک دوسرے کے نقیض و متضاد ہیں !!
۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی معاشرے کا مرکز و محور عدل و انصاف کی ضمانت اور اس کی حقیقی میزان کا حصول ہے لیکن ہر دو تحریکوں میں لفظ ’عدل‘ کے علاوہ اور کوئی قدرِ مشترک ہی نہیں ہے۔ ایک عدل اللہ کی مقرر کردہ میزان پر ہے اور ایک انسانوں کی خود ساختہ میزان پر۔ ایک عدل کا نتیجہ معاشرے میں یقینی امن و امان ہے اور دوسرے عدل کا نتیجہ معاشرے میں بے چینی و بے اطمینانی کا طروغ۔۔۔۔!
ایک طرف حقیقی انصاف، تبدیلی نظام کا مطالبہ اور شریعت کے نفاذ کی طرف پیش قدمی ہے جبکہ دوسری طرف محض ایک دیدہ زیب نعرہ اور چند قدرے بہتر افراد کی بحالی ہے۔ یوں تو لوگ چیف جسٹس کی بحالی کو غیر معمولی اہمیت دے رہے ہیں ، لیکن کیا اس سے ملک کے سنگین مسائل حل ہو جائیں گے، کیا موجودہ عدلیہ قرآن و سنت کی بنا پر حقیقی انصاف عام کر دے گی؟ جس کا دعویٰ یا ہدف و منزل بھی ان کے حاشیہ خیال میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ جس چیز کو ایک عظیم کامیابی اور نوید انقلاب قرار دیا جا رہا ہے، امر واقعہ میں ایسا نہیں !
ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ کتاب و سنت کی بنا پر اپنے فیصلے کرنا کوئی ذوقی یا اختیاری مسئلہ نہیں کہ اس میں مسلمانوں کے لئے کوئی دوسری گنجائش موجود ہو بلکہ یہ اسلام کا اپنے ماننے والوں سے اساسی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے کتاب و سنت کی بنا پر کریں ۔ قرآن کی نصف درجن آیات مسلمانوں کو اس کی تلقین اور ان کی اسلامیت کو اس سے مشروط ٹھہراتی ہیں ، خود ساختہ قوانین کی میزان پر فیصلے کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم، فاسق اور کافر قرار دیا ہے۔
[1] منذری،مختصر سنن ابی دائود:۷/۲۹۶
[2] صحیح بخاری :۳
[3] صحیح مسلم:۲۲۷۰
[4] سورۃ الفتح :۱