کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 31
حکام سے ملاقاتیں کرنے کے لئے بیرونی دوسرے پر تشریف لے جا چکے ہیں ۔
دوسری طرف حکومت کی رِٹ قائم کرنے والوں (سیکورٹی فورسز) اور جواباً عسکریت کا مظاہرہ کرنے والوں (تحریکِ طالبان) کی لڑائی سے تحریکِ نفاذ شریعت محمدی نے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنا اور سوات و ملحقہ علاقوں کے عوام کا دیرینہ مطالبہ بلکہ شرعی حق یعنی شرعی نظامِ عدل کے قیام کی منزل حاصل کرنے کی طرف کامیاب پیش قومی کی ہے۔
٭ ایک نظامِ عدل کے قیام کے لئے دنیا بھر کی تائید میسر ہے، اسے بنیادی حق سمجھا جا رہا ہے اور دوسرے نظامِ عدل کے قیام کو ’مہذب‘ دنیا کے خلاف سنگین سازش قرار دیا جا رہا ہے، اور سوات پر عالمی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
بہرحال ہر دو مراحل غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اگر لانگ مارچ کے بعد افتخار چودھری کی بحالی ملکی سطح پر ایک بڑی کامیابی ہے تو شرعی نظامِ عدل کی طرف پیش قدمی اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی کا اہم مرحلہ ہے۔ یہ نہ صرف پاکستان کے نظریۂ آزادی کی حقیقی منزل کی طرف پیش قدمی ہے بلکہ مسلم معاشرت کے احیاء کی جانب بھی ایک نمایاں اقدام ہے!
پاکستان کا منظر نامہ بھی بڑا عجیب ہے کہ ایک طرف ۱۵/ مارچ کو ملک بھر کے عوام سیکولر عدل کے قیام کے لئے حالیہ قومی تاریخ کا شدید ترین احتجاج کر رہے ہیں اور دوسری طرف ۱۵/ فروری کو اسی ملک کے سرحدی عوام اِسی لا دین نظام عدل کے خلاف احتجاج میں پوری قوت سے متحد ہیں اور ان کی تمام اُمیدوں کا مرکز اللہ کا دیا ہوا نظام عدلِ شرعی ہے جس میں نہ تو انصاف انتہائی انمول ہے اور نہ ہی ظالم کی رسی دراز ہوتی ہے!!
معاہدۂ امن کے وہ متعدد اقدامات جو صوفی محمد کی تحریکِ نفاذِ شریعت محمدیہ کی طرف سے انجام پانا تھے، ان پر باحسن طور عمل کر دیا گیا ہے اور سوات کئی ماہ کی بدترین شورش کے بعد امن و امان کی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے۔ دوسری طرف حکومتِ وقت (صدرِ مملکت) تاحال اپنے وعدوں کو حیلے بہانوں سے ٹالنے کی روش پر عمل پیرا ہیں ۔ ایک درویش منش شخص نے محض حکومت کے وعدۂ فرد اور اپنے بھرم و اعتماد کے بل بوتے پر تمام عوام کو اسلحہ پھینکنے پر آمادہ و مجبور کر دیا ہے۔ صوفی محمد نے جہاں سوات میں امن و امان کی تمام تر ذمہ داری قبول کی ہے، وہاں
[1] مختصر سنن ابی دائودللمنذری مع المعالم:۷/۲۹۶
[2] ایضاً :۷/۲۹۷
[3] سورہ الصافات :۱۰۲تا۱۰۵