کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 30
معاشرے میں حکومت کے چھ بنیادی وظائف: نظامِ عدل، نظامِ تعلیم، نظامہائے سیاست، معاشرت و معیشت اور صحت میں سے محض ایک نظامِ عدل کی اصلاح کے وعدے پر معاہدۂ امن کی ضمانت دی گئی ہے۔
٭ نفاذِ شریعت محمدیہ اور تحریکِ طالبان کے مابین بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نفاذ کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح حکومت مخالف سیاسی جماعتوں میں بھی اپنے واحد مطالبہ کے حصول کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کیونکہ بعد میں متعین کئے جانے والے جج حضرات کو قبول کر لینے، چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے بطورِ چیف جسٹس کردار اور فیصلوں کو تسلیم کر لینے سے ۳ نومبر والی عدلیہ کو بحال کرنے کا وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔ لیکن ہر دو تحریکوں نے اپنے کم از کم مطالبات ماننے پر احتجاج کا راستہ ترک کر دیا۔
٭ ہر دو تحریکوں میں دو نہایت مقبولِ عوام رہنماؤں نے عوام کی قیادت کی اور دونوں کی قیادت پر ان کے پیرو کاروں کو پورا اطمینان و اعتماد حاصل ہے۔ صوفی محمد کی عوام میں روحانی مقبولیت ہو یا نواز شریف کی عوامی پذیرائی، دونوں عوام کی اُمیدوں کے مرکز و محور ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر دو مراحل پر طویل عرصہ کے انتشار و اضطراب کے بعد عوام کو سکون کا سانس لینا نصیب ہوا ہے۔
٭ دونوں تحریکوں کو اصل مشکل وقت کے صدر سے درپیش ہے، ایک طرف تو صدر بظاہر سرنڈر کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ، جبکہ دوسری طرف سوات کے معاملے میں تاحال صدر نے فیصلہ کن دستخط نہیں کئے جس کے بعد ہی ’نفاذِ عدل ریگولیشن‘ قانونی حیثیت پا سکے گا۔
٭ وکلاء کی تحریکِ عدل میں فریقین (حکومت اور عوام) کی لڑائی سے فوج نے اپنے مرکز قوت کو مستحکم کر کے سب سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ اس نے امریکہ کو محض صدر زرداری پر انحصار نہ کرنے کا واضح اشارہ دینے کے علاوہ دو بڑی سیاسی جماعتوں کو مستقبل میں باہمی زور آزمائی کے لئے زیادہ سازگار فضا میسر کر دی ہے، اِس اقدام سے فوج کو اپنے اوپر حکومت وقت کی نگرانی سے بھی رعایت مل گئی ہے۔ فوج کے اس لانگ مارچ میں کامیاب سیاسی کردار کا نتیجہ ہے کہ فوج سربراہ برطانیہ کے دورے پر اپنے ہم منصب حضرات کی بجائے اعلیٰ برطانوی
[1] صحیح مسلم:۲۲۶۱
[2] ایضاً
[3] ایضاً
[4] ایضاً: ۲۲۶۳
[5] ایضاً:۲۲۶۱
[6] ایضاً:۲۲۶۶
[7] ایضاً:۲۲۶۱
[8] صحیح بخاری: ۶۹۹۰
[9] صحیح مسلم:۲۲۶۱
[10] صحیح بخاری: ۷۰۳۰
[11] ایضاً: ۶۹۸۳
[12] صحیح مسلم:۲۲۶۲
[13] ایضاً:۲۲۶۵