کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 29
کتاب: محدث شمارہ 328 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ پوری قوم کا ایک ہی مطالبہ؛ قیامِ عدل ’عدل و انصاف‘ کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، پاکستانی قوم بھی اس وقت عدل کے دوراہے پر کھڑی ہے، جس کے قیام کے لئے ملک کی دو بڑی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں ۔ ہر دو تحریکوں کا پس منظر، نوعیت اور ہدف گو مختلف ہے لیکن دونوں کا اساسی نعرہ اور مطالبہ ’عدل کا قیام‘ ہے۔ ۱۵/ فروری کو سوات میں شرعی نظامِ عدل کے قیام کا معاہدہ ہو، یا ۱۵/ مارچ کی شب ملک میں آزاد عدلیہ کا قیام، یہ دونوں اپنی اپنی نوعیت کے اہم سنگ ہائے میل ہیں جن کے اثرات تادیر محسوس کئے جاتے رہیں گے۔ دونوں قسم ہائے عدل کے مطالبے تو ملتے جلتے ہیں لیکن ہر دو اپنی نوعیت اور نقاصد کے اعتبار سے مختلف زاویۂ نظر اور طریقۂ کار کے نمائندہ ہیں : ٭ جمہوریت کے علم بردار اپنے جمہوری حق کے تحت احتجاج اور دھرنے کے ساتھ لانگ مارچ کی سیاست کر کے، زور آزمائی کے نتیجے میں اپنا اساسی مطالبہ منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو نفاذِ اسلام کے علم بردار اَمن و صلح کے نام پر اپنا شرعی مطالبہ لے کر سامنے آئے ہیں ۔ یاد رہے کہ سوات کے ’امن معاہدہ‘ کے دو فریق حکومت اور تحریکِ نفاذِ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا تحریکِ طالبان پاکستان کے مولانا فضل اللہ س ے کوئی باضابطہ تعلق نہیں اور نہ ہی دونوں کے طریقۂ کار اور حکمتِ عملی میں کوئی مماثلت موجود ہے۔ ٭ ہر دو تحریکوں کی حزبِ مخالف و مقابل حکومتِ وقت ہے جس میں دونوں نے اپنے متعدد مطالبوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض ایک ایک اساسی ہدف کی تکمیل پر انحصار کیا ہے۔ مسلم لیگ ’ن‘ اور وکلا تحریک نے صرف ایک مطالبہ یعنی ۳/ نومبر والی عدلیہ کے قیام کی شرط پر پورا لانگ مارچ ملتوی کر دیا، جبکہ دوسری طرف تحریکِ نفاذِ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے
[1] سنن ابن ماجہ : 3923 ، مسند احمد : 6/399