کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 138
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے عظیم بابا شافع روزِ جزا، شفیع المذنبین یہ نہیں پوچھیں گے کہ تم نے ہمیں گالیاں دینے والے بدبخت کی یاد میں بسنت مناکر کون سے روشن خیال اور خوش حال پاکستان کو وجود بخشا؟جو تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے بدحالی اور عدلیہ کی بحالی کے بغیر ظلم کی تاریکیوں کا گڑھ بن رہا تھا۔ وہ بھی اسی پنجاب کا گورنر تھا۔ نام زکریا خان تھا، لیکن وہ قانون پابند اور اسلام پابند تھا۔ صرف زبانی کلامی قانون پسند اور اسلام پسند نہ تھا۔ ۱۷۰۹ء کی بات ہے کہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کے ایک ہندو حقیقت رائے بھاگ دونی کے خبث ِباطن کا اظہار رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کے لیے پمفلٹ شائع کیا۔ مسلمانوں کا ایمان زندہ تھا، حیا زندہ تھی۔ ان کے احتجاج (دھرنے)پر مجرم پنجاب کی عدالت عالیہ کے سپرد کردیاگیا۔ اس زمانے میں NROکا وجود نہ تھا، نہ انصار برنی جیسا وکیل وزیر تھا۔ زکریا خان گورنر نے بے لاگ عدل کے لیے ۳ ہندو، ۳ مسلمان اور ۲ سکھ جج مقرر کئے۔ ۸ ججوں کے سامنے اس خبیث بدبخت شاتم ِ رسول کے دفاع کے لیے ہندو اور انگریز وکیلوں نے ٹِل لگایا مگر ٹُل نہ لگ سکا اور عدالت نے اس کے لیے پھانسی کا ٹَل کھڑکا دیا۔ رحم کی اپیل مسترد ہوئی اور وہ تختہ دار پر لٹک گیا۔ ہندوؤں نے جلوس نکال کر عدالت عالیہ کے ججوں اور کارندوں کے علاوہ حقیقت رائے کے سیالکوٹ کے محلے دار مسلمانوں اور وکیلوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی جہنم پکی کرلی۔ حقیقت رائے کی بیوی بلونتی سکھنی تھی، وہ بھی سکھ ہوگیا۔ لہٰذا ہندوؤں کے علاوہ سکھوں کا ہیرو بن گیا۔ اسے کوٹ خواجہ سعید لاہور میں دبا دیا گیا۔ اسے ’’بابے دی مڑھی‘‘ کا نام دیا گیا۔ تین دن یہاں زرد کپڑے پہن کر زردپتنگیں اڑا کر راجہ رنجیت سنگھ ، درباریوں اور عوام الناس کے ساتھ بسنت منایا کرتا تھا۔ لاہور میں چاندی کے سکوں کی برسات ہوا کرتی تھی۔ ان کا ہیرو تو تھا لیکن مسلمانوں نے جہالت سے بابے کی مڑھی پر چڑھاوے چڑھانے کے ساتھ ساتھ بسنت مناکر ان سے بھی زیادہ جان مال عزت و آبرو، ایمان اور پاکستان کی بربادی کا سامان کیا ہے، کیونکہ دین اسلام کی غیرت کا چراغ گل ہوجائے تو کفر بغیر ہتھیار فاتح ہوجاتا ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا یہ سوال بجا ہے: