کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 123
مستحب ہے ۔ یہاں ہم اس بات کا تذکرہ کرنابھی مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے اس موقف پر ایک کتاب ترتیب دی ہے جو زیر طباعت ہے او ر اس میں منکرین حجاب اور مستحبین نقاب کے تمام ان دلائل کا ایک علمی محاکمہ پیش کیا گیا ہے کہ جو وہ چہرے کے پردے کے عدمِ وجوب کے بارے میں پیش کرتے ہیں ۔خصوصا علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے دلائل کا بصد احترام ایک علمی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ حال ہی میں ’چہرے کا پردہ:واجب یا غیر واجب؟ ‘ کے نام سے لاہور کے ایک مکتبہ ’دار التذکیر‘ نے ایک کتاب شائع کی ہے۔اس کتاب کے ٹائٹل پر مصنف کا نام ’پروفیسر خورشید عالم‘ لکھا ہے ۔یہ وہی خورشید صاحب ہیں کہ جن ذکر ِخیر ہم اوپر کررہے تھے۔ اس کتاب میں راقم الحروف کے کچھ مضامین بھی شامل تھے جس پر مجھے حیرانگی ہوئی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میری ہی تحریریں میری کسی اجازت کے بغیر کسی مکتبے نے شائع کر دی ہوں ۔ بلاشبہ’ دار التذکیر‘ کی میرے ان مضامین کی میری اجازت کے بغیر اشاعت ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت تھی۔ جب میں نے اس بارے میں ’دار التذکیر‘ کے مالک احسن تہامی صاحب سے رابطہ کیا کہ میرے کچھ مضامین آپ کے ادارے کی شائع شدہ کتاب میں میری اجازت کے بغیر کس طرح شائع ہو گئے تو اُنہوں نے کہا : ان سے غلطی ہو گئی ہے اور اُنہوں نے اس معاملے میں اصل اعتماد پروفیسر خورشید صاحب پر کیا تھا۔ دوسرے دن میری پروفیسر صاحب سے جب ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے بھی کہا کہ مجھے کسی ایسے قانون کا علم نہ تھا۔ میں تو آپ کے ان مضامین کو پبلک پرا پرٹی سمجھتا تھا ، لہٰذا آپ مجھے عدالت کے جس کٹہرے میں کھڑا کر نا چاہیں ، میں کھڑا ہونے کو تیار ہوں ۔جواباً میں نے اُنہیں عرض کیا:میں نے اپنے ان مضامین کو تصحیح و تہذیب، حک و اضافہ،تنقیح و تخریج اور اسلوبِ بیان کی کئی ایک بنیادی تبدیلیوں سے گزارنے کے بعد ایک کتابی شکل دے دی ہے اور وہ قرآن اکیڈمی کے مکتبہ میں زیر طبع ہے اور ہر مصنف ایسا کرتا ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے حیرانی کا اظہار فرمایا اور مجھے کہنے لگے: آئندہ اس کتاب کی