کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 122
ہے اور ہم دوسرا موقف رکھنے والے علماء و فقہاء کوبھی ’عند اللہ مأجور‘سمجھتے ہیں ، کیونکہ اُنہوں نے اپنی بساط میں اجتہاد کر کے قرآ ن و سنت سے اللہ کے حکم کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس کے اہل بھی تھے اور مخلص بھی تھے ۔ لیکن سلف میں سے کسی عالم کابھی ایسا قول موجود نہیں ہے کہ جس میں چہرے کے پردے کو بدعت یا ایک تہذیبی روایت کہا گیا ہواور جو نا م نہاد سکالر ز چہرے کے پردے کو بدعت یا ایک تہذیبی روایت یا دین میں مشقت کہتے ہیں تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا ہے: ﴿اَضَلَّہٗ اللّہُ عَلیٰ عِلْمٍ﴾ اللہ تعالی نے ان کو علم کے باوجود گمراہ کر دیا ہے۔ علماے اہل سنت میں سے کسی کا بھی یہ دعویٰ نہیں ہے کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ کھلارکھنا واجب یا افضل ہے۔علما کی بحث اس مسئلے میں صرف اس بات تک محدود ہے کہ عورت کا چہرہ ستر میں داخل ہے یا نہیں ؟ یعنی عورت اپنا چہرہ کھلا رکھنے کی وجہ سے گنہگار ہو گی یا نہیں ؟ جہاں تک چہرے کے پردے کے مستحب ہونے کا تعلق ہے تو تمام علما اس بات کے قائل ہیں کہ کم از کم چہرے کا پردہ مستحب ہے،ماسواے عصر حاضر کے بعض متجددین کے جو چہرے کے پردے کو اپنی کم علمی کی و جہ سے بدعت قرار دینے کی طرف مائل ہیں ۔ مذاہب ِاربعہ کے متبعین، جمہور علماے متا خرین کا مذہب یہ ہے کہ چہرے کا پردہ کرنا شرعاً واجب ہے۔عصر حاضر میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے چہرے کے پردے کے بارے میں استحباب کا موقف پورے شد و مد کے ساتھ پیش کیا۔اور حقیقت یہ ہے کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے دَور اور مابعد کے تمام نام نہاد محققین حضرات نے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہی بیان کردہ دلائل اور تحقیق کا خلاصہ پیش کیاہے ۔جہاں تک علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے تو ہم ان کو اس حدیث (( إذا حکم الحاکم ثم أصاب فلہ أجران وإذا حکم فاجتھد ثم أخطأ فلہ أجر))کے مصداق کے طورپر معذور اور عند اللہ ماجور سمجھتے ہیں ،لیکن منکرین حجاب سے ہم یہ گزارش کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اس موضوع پر قلم اُٹھاتے وقت اپنے بدعی موقف کے ساتھ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ یا دیگر علماے سلف کے موقف کو خلط ملط نہ کریں ۔دراصل یہ حضرات مغرب کی اندھی تقلید میں پردے کو روایت پسندی قرار دیتے ہیں جبکہ بعض علماے سلف اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک چہرے کا پردہ