کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 121
ہوتا کہ اس کو نہ کیا جائے یا اس کے نہ کرنے کی لوگوں کو دعوت دی جائے مثلاً پانچ نمازوں کی سنن ہیں ، اب سنن کے مستحب ہونے کا یہ مفہوم قطعاً نہیں ہے کہ کوئی شخص ان کے چھوڑنے کو افضل سمجھے اور ان کی ادائیگی کو مشقت قرار دیتے ہوئے اُمت ِمسلمہ کو ان کے چھوڑنے کی تلقین کرے۔ پروفیسر صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زبانی کلامی اس بات کا اقرار کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا موقف علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ والا ہی ہے، لیکن وہ اس موقف کے داعی نہیں بنتے جب بھی وہ اس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں توایک تو وہ چہرے کے پردے کے قائلین پر تنقید کرتے ہیں ، دوسرا وہ چہرے کا پردہ نہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور اسے مشقت قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ پروفیسر صاحب اپنی تحقیقات میں جن بعض سلف صالحین کے اقوال کے حوالے دیتے ہیں ، وہ چہرے کے پردے کے داعی ہیں اور عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنے کو، نہ ڈھانپنے سے افضل سمجھتے ہیں ۔ افسوس کہ یہ منکرین حجاب مستحب کی اصطلاحی تعریف سے بھی واقف نہیں ہیں ۔اُصولیین نے مستحب یا سنت کی جو تعریف کی ہے، وہ یہ ہے : ھو ما طلب الشارع فعلہ من المکلف طلبًا غیر حتم (أصول الفقہ الإسلامي للدکتور وھبۃ الزحیلي:۱/۷۶، طبع مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ) ’’(مندوب یا مستحب سے مراد) وہ فعل ہے کہ جس کا شارع نے مکلف سے مطالبہ کیا ہو،لیکن اسے لازم قرار نہ دیا ۔‘‘ گویا کہ مستحب وہ ہوتا ہے کہ جس کے کرنے کا شارع نے مطالبہ کیاہو، لیکن اس کے کرنے کو لازم قرار نہ دیا ہو یعنی اگراسے کرے گا تو ثواب ملے گا اور نہ کرے گا تو گنہگار نہیں ہو گا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سلف میں چہرے کے پردے کے بارے میں تین موقف موجود ہیں ، بعض سلف صالحین کے نزدیک یہ شرعاً واجب ہے جبکہ بعض فقہا اس کو شرعاًمستحب قرار دیتے ہیں اور سدذریعہ کے طورپر واجب قرار دیتے ہیں ، جبکہ بہت ہی کم تعداد ایسے علما کی ہے جو اس کو نہ تو شرعاً واجب سمجھتے ہیں اور نہ ہی سد ذریعہ کے طورپر،بلکہ ہر حال میں مستحب قرار دیتے ہیں ۔ہمارے نزدیک پہلا موقف دلائل کی روشنی میں قوی اور راجح