کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 120
دوسری طرف علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں :
فبینا ما یجب علی المرأۃ وما یحسن بہا، من التزم الواجب فبھا ونعمت، ومن أخذ بالأحسن فھو أفضل وھٰذا ھو الذي التزمتُہ عملیا مع زوجي وأرجو ﷲ تعالی أن یوفقني لمثلہ مع بناتي حین یبلغن (حجاب المرأۃ المسلمۃ:ص ۷)
’’پس ہم نے اچھی طرح سے واضح کر دیا ہے کہ عورت کے لیے کیا واجب ہے اور کیا مستحسن؟ جس نے واجب کو مضبوطی سے پکڑا تو وہ اس کو کفایت کرے گااور وہ بہتر ہے۔ اور جس نے احسن(یعنی چہرے کے پردہ) کو پکڑا تو وہ افضل ہے۔ اور یہ (چہرے کا پردہ) وہی ہے جس کاالتزام میں نے ازدواجی زندگی میں اپنی بیوی کے ساتھ کیا ہے اور میں اللہ سے اُمید کرتاہوں کہ وہ مجھے اسی بات ( چہرے کے پردے) کی اپنی بیٹیوں کے بارے میں بھی توفیق دے جب وہ جوان ہو جائیں ۔ ‘‘
کیا اس تقابلی مطالعے کے بعد بھی کوئی پروفیسر صاحب کے اس دعوے پر یقین رکھ سکتا ہے کہ چہرے کے پردے کے بارے میں ان کا موقف بھی وہی ہے جو علامہ البانی کا ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ تو مسلمان عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنے کے داعی ہیں جبکہ پروفیسر صاحب مسلمان عورتوں کے نقاب اُتروانے کے ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں ۔
پروفیسر صاحب کو ابھی تک ہمت نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو گی کہ وہ اپنے کسی مضمون میں یہ لکھ سکیں کہ و ہ چہرے کے پردے کو مستحب سمجھتے ہیں ۔پروفیسر صاحب اپنے ہر مضمون میں بار بار کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ غیر واجب ہے۔غیر واجب کا مطلب کیا ہے؟ غیر واجب یا تومستحب ہو گا یا مباح ہو گا یا مکرو ہ ہو گا یا حرام بھی ہو سکتا ہے۔ اگرپروفیسر صاحب کی غیر واجب سے مراد مستحب ہے تواس کو اپنے کسی مضمون میں لکھ کیوں نہیں دیتے!؟ اپنی کتاب کا عنوان یہ کیوں نہیں رکھتے:’چہرے کا پردہ واجب یا مستحب‘؟ پروفیسر صاحب در حقیقت علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ جیسے سلف کے موقف کواپنے بدعتی موقف کے ساتھ خلط ملط کرناچاہتے ہیں ۔اس مقصود کے حصول کے لیے وہ غیر واجب جیسی مبہم اصطلاحات کا سہارا تلاش کرتے ہیں ۔
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ چہرے کے پردے کو مستحب سمجھتے ہیں اورکسی عمل کے مستحب کا مطلب یہ نہیں