کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 119
ستر الوجہ والکفین لہ أصل في السنۃ، وقد کان ذلک معھودًا في زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ (حجاب المرأۃ المسلمۃ: ص ۲۷) ’’اور اس کے بالمقابل ایک دوسرا گروہ ہے جن کا خیال یہ ہے کہ چہرے کا پردہ بدعت ہے اور دین میں ایک نئی ایجاد ہے ۔جیساکہ ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ لبنان کے بعض علاقوں کے رہنے والے حاملینِ سنت نے بھی ایسی بات کہی ہے ۔ ہم اپنے ان بھائیوں اور ان کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی ذیل میں چند دلائل بیان کرتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ چہرے اور دونوں ہاتھوں کے ڈھانپنے کی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ ڈھانپتی تھیں …‘‘ اس کے بعد علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ کے قریب احادیث اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے استدلال کرتے ہوئے اپنی اس بحث کو واضح فرمایا جن کی اسناد اور ان کی تحقیق حجاب المرأۃ المسلمۃ کے صفحات ۴۷ تا ۵۳پر دیکھی جاسکتی ہیں ۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی جو آخری کتاب حجاب کے موضوع پر شائع ہوئی اس کا عنوان یہ ہے : الرد المفحم علیٰ من خالف العلماء وتشدَّد وتعصَّب، وألزم المرأۃ بستر وجھھا وکفیھا وأوجب ولم یقتنع بقولھم: إنہ سنۃ ومستحب ’’اس شخص کا منہ توڑ جواب کہ جس نے تشدد اور تعصب سے کام لیتے ہوئے علماء کی مخالفت کی اور عورت کے لیے اس کے چہرے اور ہاتھوں کا ڈھانپنا واجب قرار دیا اور اس نے علما کے اس قول پر اکتفا نہ کیا کہ عورت کے لیے اپنے چہرے کو ڈھانپنا سنت اور مستحب ہے ۔ ‘‘ پس معلوم ہوا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا آخری موقف بھی یہ تھا کہ چہرے کا پردہ مستحب ہے نہ کہ واجب، جبکہ پروفیسر صاحب کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے تو مسلمان عورتوں کے چہروں کے پردے اُتروانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر صاحب اس موضوع پر اپنی حالیہ کتاب کا انتساب اپنی والدہ کی طرف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’انتساب اپنی والدہ مرحومہ کے نام جنھوں نے گاؤں میں اور پھر شہر میں کھلے چہرے کے ساتھ انتہائی پاکیزہ زندگی گزاری۔‘‘ (’چہرے کا پردہ واجب یا غیر واجب‘: از پروفیسر خورشید عالم، طبع دار التذکیر)