کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 118
استحباب کے بارے میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کردہ دلائل یا موقف کو وہ ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ۔ ہم نے پروفیسر صاحب کو اپنی تحریروں میں بعض دفعہ متوجہ بھی کیا، لیکن اُنہوں نے اس کے باوجود کتمانِ حقیقت کے اپنے اس مشن کو جاری رکھا۔ ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے حالیہ مضمون کا بھانڈا پھوڑ رہے ہیں جس میں اُنہوں نے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا ایسا موقف بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کادرحقیقت نہیں ہے۔پروفیسر صاحب اپنے حالیہ مضمون کا خلاصہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے مطابق چہرے اور ہاتھوں کو نہ عادتاً چھپایا جا سکتا ہے، نہ عبادتاً۔‘‘ (ماہنامہ اشراق: مارچ ۲۰۰۹ء، ص ۶۷) اب علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس مسئلے پر عبارتیں ملحوظ فرمائیں : علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نلفّتُ نظر النساء المؤمنات إلی أن کشف الوجہ وإن کان جائزًا،فسترہ أفضل(حجاب المرأۃ المسلمۃ از علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ : ص ۵) ’’ہم عورتوں کو اس بات کی توجہ دلاتے ہیں کہ چہرہ کھلا رکھنے کا اگرچہ جواز ہے، لیکن اس کا ڈھانپنا افضل ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : فمن حجب ذلک (أي الوجہ والکفین) أیضًا منھن فذلک ما نستحبہ لہن وندعو إلیہ (حجاب المرأۃ المسلمۃ: ص ۸) ’’جس نے ان دونوں (یعنی چہرے اور ہاتھوں ) کو ڈھانپا تواسی بات کو ہم مستحب سمجھتے ہیں اور اسی کی دعوت دیتے ہیں ۔‘‘ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : ویقابل ہؤلاء طائفۃ أخرٰی یرون أن سترہ بدعۃ وتنطع في الدین،کما قد بلغنا عن بعض من یتمسک بما ثبت في السنۃ في بعض البلاد اللبنانیۃ، فإِلی ہؤلاء الإخوان وغیرھم نسوق الکلمۃ التالیۃ لیعلم أن