کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 116
ان کے بعد صدیوں تک اُمت ِمسلمہ کے محدثین، فقہا اور مجتہدین رحمہم اللہ بے چارے ساری عمر یہ حسرت اپنے دلوں میں لیے اسی انتظار میں دنیا سے رخصت ہوگئے کہ کب جاوید غامدی پنجاب کے خطے میں جنم لیں اور پھر ان سب کو حدیث پر غوروتدبر کرنے کے صحیح اُصول سکھائیں تاکہ حدیث کو سمجھنے میں کسی قسم کی غلطی کاکوئی امکان باقی نہ رہے۔
کیا کوئی معقول آدمی یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ پوری اُمت ِمسلمہ توآج تک حدیث کو سمجھنے میں غلطیاں کرتی چلی آرہی ہے اور وہ خود حدیث کو سمجھنے میں کوئی غلطی نہیں کرسکتا، کیونکہ اُس کی جیب میں ایسے اُصولِ حدیث رکھے ہیں جو آسمان سے نازل ہوئے ہیں اور خود اس پر ایسا الہام ہوتاہے جس میں کسی غلطی کاکوئی شائبہ تک نہیں ؟ اس طرح کا دعویٰ کرنا علمیت کی نہیں ، جہالت کی دلیل ہے۔
اگر اُمت ِمسلمہ چودہ صدیوں سے حدیث کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکی تو جناب غامدی صاحب کو کون سے سرخاب کے پَر لگے ہیں کہ وہ حدیث کو جو کچھ سمجھتے ہیں ، وہی حرف ِ آخر ہے۔ کیا وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں ؟ یا اُنہیں اپنے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا زعم ہے؟
٭٭ ان کی حدیث فہمی کا حال جاننے کے لیے ایک مثال ہی کافی ہے:
صحیح احادیث کے مطابق شادی شدہ زانی کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے اور اسی پر اجماعِ اُمت ہے۔مگر انہی احادیث کو جب غامدی صاحب اپنے خانہ ساز ’حدیث کے اُصول‘ کی روشنی میں سمجھتے ہیں تو ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں رجم یعنی سنگساری کی حد کسی شادی شدہ شخص کے جرم زنا کی سزا نہیں ہے بلکہ یہ بدمعاشی کی سزا ہے۔ حالانکہ رجم سے متعلق (احادیث) صحیحہ سے ایسا نتیجہ نکالنا بجائے خود زیادتی سے کم نہیں ۔
اسی طرح کا سلوک وہ دوسری تمام احادیث سے کرتے ہیں اور سب کو دین سے خارج سمجھتے ہیں اور اُن سے ثابت شدہ کسی عقیدے، عمل اور حکم کو ضروری اور واجب الاطاعت تسلیم نہیں کرتے۔ کیا یہ انکار ِ حدیث نہیں ہے؟ (جاری ہے)