کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 115
جناب میں شفاعت ممکن ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پرارشاد ہوا ہے کہ:
﴿ما من شفیع الا من بعد اذنہ﴾ (یونس:۳)
’’اُس (اللہ) کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ۔‘‘
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت ہوسکتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ ہی کی اجازت سے اپنی اُمت کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ بتائیے اس بارے میں کیا اُلجھن ہوسکتی ہے؟
5. حدیث (( أمرت أن اقاتل الناس)) ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں …‘‘ صحیحین میں موجود ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے خلاف جہاد و قتال کاحکم دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے خلاف عملی طور پر جہاد و قتال کیا ہے اور یہ قرآن مجید کابھی حکم ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟
6. صحیح حدیث (( من بدَّل دینہ فاقتلوہ)) ’’جوشخص اپنا دین بدل ڈالے تو اُسے قتل کردو‘‘ اور اسی مضمون کی چند اور صحیح احادیث میں بھی مرتد کی سزا کا قانون بیان ہوا ہے۔ اس قانون کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی نافذ کیا ہے اور اس اُمت ِمسلمہ کا اجماع قطعی موجود ہے کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟
بات دراصل یہ ہے کہ غامدی صاحب منکر ِحدیث ہیں اور وہ ’اُلجھنوں ‘ کے نام سے بھی صحیح احادیث کی غلط تاویلیں کرتے اور اُن کا انکار کرتے ہیں اور یہ بھی اُن کا ایک ’طریق واردات‘ ہے۔ جو وہ اپنی ’میزان‘ نامی کتاب کے ذریعے استعمال کرتے ہیں :
عدل کا جس کے بہت چرچا سنا تھا ہم نے
اُس کے انصاف کے بھی کتنے ترازو نکلے
4. کیا حدیث کو سمجھنے میں اب تک غلطیاں ہوئی ہیں ؟
غامدی صاحب کا یہ دعویٰ بھی محل نظر ہے کہ حدیث کو سمجھنے میں اب تک غلطیاں ہوئی ہیں ۔
اس کا سبب ظاہر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین،تبع تابعین، خیرالقرون کے سلف صالحین اور