کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 114
اور سازشیں کی تھیں جس کے نتیجے میں ایک صحابی حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اُسے قتل کردیا تھا۔ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ میں لکھا ہے کہ
’’فتنہ انگیزی کا زیادہ اندیشہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے شکایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی سے حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ رؤساے اوس جاکر اُس (کعب بن اشرف) کو ربیع الاوّل ۳ ہجری میں قتل کردیا۔‘‘ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم : جلد اوّل، ص۲۳۳، طبع لاہور)
مؤرّخِ اسلام اکبر شاہ خاں نجیب آبادی نے لکھا ہے کہ
جب کعب بن اشرف کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں تو ایک صحابی محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شریر کے قتل کی اجازت لینے کے بعد کئی اوردوستوں کو ہمراہ لیا اور اس کے گھرجاکر اُس کو قتل کیا۔‘‘ (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں : جلد اوّل/ ص۱۷۶، طبع لاہور)
بتائیے اس واقعے میں کیا اُلجھن ہے!!
3. عذاب ِ قبر کے بارے میں صحیح اور مستند احادیث موجود ہیں ۔یہ اللہ کے مجرموں کے لیے دوزخ کے قید خانے کی اصل سزا سے پہلے اُن کو عالم برزخ کی حوالات میں رکھنے کی حالت ہے۔ بتائیے اس میں کیا اُلجھن ہے؟ جبکہ خود قرآنِ مجید میں بھی عذاب قبر کے بارے میں واضح اشارہ موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ
﴿اَلنَّارُ یَعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المؤمن:۴۶)
’’ان لوگوں کو(عالم بزرخ میں ) صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے کھڑا کیا جاتاہے اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو حکم ہوگا کہ ’فرعون والوں ‘ کو سخت ترین عذاب میں ڈالا جائے۔‘‘
4. صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ آخرت میں مسلمان گناہگاروں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ قرآنِ مجید سے بھی اس شفاعت کے حق میں دلیل موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے شفاعت ہوسکے گی جیساکہ آیت الکرسی میں ہے کہ
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ﴾ (البقرۃ:۲۵۵)
’’ایسا کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے۔‘‘
اس میں الا باذنہ کا استثنا موجود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے حکم سے اس کی