کتاب: محدث شمارہ 328 - صفحہ 113
۱۱۔ دُعا کے وقت ہاتھ اُٹھانا
۱۲۔ درجنوں بادشاہوں اور حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے خطوط بھیجنا اور اُن پر مہر ثبت کرنا
۱۳۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کی اجازت دینا
۱۴۔ نجاشی کا مسلمان ہونا اور اُس کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنا
۱۵۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ۲۷ غزوات میں شرکت فرمانا
۱۶۔ خطبۂ حجۃ الوداع
تو کیا ان جیسے بے شمار پیغمبرانہ اُمور کا صرف اس لیے انکار کردیا جائے گا کہ ان کی تاریخ کا حتمی اور قطعی ماخذ قرآن نہیں ہے اور یہ قرآن میں موجود نہیں ہیں، اس لیے یہ سب غلط اور بے اصل ہیں ۔
3. کیا عہد ِرسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض احکام اُمت کے لیے اُلجھن کا باعث بن گئے؟
غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عہد ِ رسالت میں رجم کے واقعات ، کعب بن اشرف کا قتل، عذاب ِ قبر، شفاعت کی روایتیں ،(( اُمرت اَن اُقاتل الناس))اور(( من بدَّل دینہ فاقتلوہ)) جیسے احکام اُمت کے لیے اُلجھنیں بن گئیں ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام امور غامدی صاحب کی اپنی خانہ ساز عقل کے لیے تو اُلجھنیں ہوسکتی ہیں مگر یہ سب چیزیں اُمت ِمسلمہ اور علمائے اسلام کے دل و دماغ میں کبھی اُلجھنیں نہیں رہیں ، ہمیشہ بالکل واضح رہی ہیں ۔
اب ہم ان اُمور پر تفصیلی بحث کریں گے جن کو غامدی صاحب اُلجھنیں قراردیتے ہیں :
1. عہد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شادی شدہ زانیوں پررجم یعنی سنگساری کی حد جاری کی گئی اور غیر شادی شدہ زانیوں کوسو کوڑوں کی سزا دی گئی۔ بتائیے اس بارے میں کون سی اُلجھن ہے؟
2. یہودی سردار کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ صحیحین کے علاوہ ’سیرت ابن ہشام‘ میں بھی موجود ہے۔ اس شخص نے دوسری شرارتوں کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی تدبیریں