کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 99
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی امارت
جب میں شہر رملہ پہنچا تو میرے پاس اس چالیس ہزا ر میں سے صرف دس دینار باقی تھے۔ میں نے کرائے پر سواری لی اورحجاز کو روانہ ہوگیا۔ منزلوں پر منز لیں طے کرتا ہوا آخر ستائیسویں دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر ( مدینہ) پہنچ گیا۔ نمازِ عصر کے بعدمیرا داخلہ ہوا تھا۔مسجد میں نماز پڑھی۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ لوہے کی ایک کرسی مسجد میں رکھی ہے۔ کرسی پر بیش بہا قباطی مصر کا تکیہ جما ہواہے اورتکیے پر لکھا ہے:’’ لا إلہ إلا اﷲ محمد رسو ل اﷲ‘‘!
میں ابھی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ مالک رحمۃ اللہ علیہ بن انس باب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آتے دکھائی دئیے۔ پوری مسجد عطر سے مہک اُٹھی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ چار سو یا اس سے بھی زیادہ کا مجمع تھا۔ چار آدمی ان کے جبے کے دامن اُٹھائے چل رہے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اپنی مجلس پرپہنچے تو بیٹھے ہوئے سب آدمی کھڑے ہو گئے۔
امام مالک کرسی پربیٹھ گئے اورجراحِ عمد کا ایک مسئلہ پیش کیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اورمیں نے قریب کے آدمی کے کان میں کہا: اس مسئلے کا یہ جواب ہے۔اس شخص نے میرا بتایا ہوا جواب اونچی آواز سے سنا دیا، مگر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی طرف مطلق توجہ نہ کی اور شاگردوں سے جواب کے طالب ہوئے۔ شاگردوں کے سب جواب غلط تھے۔ امام مالک نے کہا: تم غلطی پر ہو۔ پہلے ہی آدمی کا جواب صحیح ہے! یہ سن کر وہ جاہل بہت خوش ہوا کہ امام مالک نے دوسرا مسئلہ پیش کیا۔ جاہل میری طرف دیکھنے لگا ۔ میں نے پھر جواب بتا دیا۔ اس دفعہ بھی امام مالک کے شاگرد صحیح جواب نہ دے سکے اور اس جاہل کی زبانی میرا ہی جواب ٹھیک نکلا!
تب تیسرے مسئلے پر بھی یہی صورت پیش آئی تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس جاہل کی طرف متوجہ ہوئے اورکہا: یہاں آؤ وہ جگہ تمہاری نہیں ہے! ‘‘آدمی ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچا ، تو اُنہوں نے سوال کیا :’’ تم نے موطأ پڑھی ہے ؟‘‘ جاہل نے جواب دیا: نہیں ۔ امام مالک نے پوچھا: ’’ ابن جریج کے علم پر تمہاری نظر ہے؟‘‘ اس نے پھرکہا: نہیں ۔ امام مالک نے پوچھا: جعفر بن محمد صادق سے ملے ہو۔ کہنے لگا: نہیں اب تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو تعجب ہوا۔ کہنے لگے: ’’ پھر یہ علم تمہیں