کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 98
سوار ہوگیا۔ غلام سر جھکائے آگے آگے چل رہا تھا ، یہاں تک کہ امیر کا گھر آ گیا۔
امیرنے دولت پیش کردی
تھوڑی دیر میں خود امیر بھی آپہنچا اوربڑی سعادت ظاہر کی۔ پھر دستر خوان بچھ گیا اورہمارے ہاتھ دھلائے گئے ، مگر میں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا۔ امیر کہنے لگا : کیوں کیا بات ہی؟ میں نے جواب دیا : کھانا مجھ پر حرام ہے، جب تک یہ نہ بتا دو کہ تم نے مجھے پہچانا کیسے؟ امیرنے کہا :’’ بغداد میں آپ نے جوکتاب لکھ کر سنائی تھی، اس کے سننے والوں میں ایک میں بھی تھا، اس طرح آپ میرے اُستاد ہیں ۔ ‘‘ یہ سن کر میں نے کہا:، علم دانشمندوں کا کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ پھر میں نے ایسی خوش دلی سے کھانا کھایا کہ خدا جانتا ہے ، اپنے جیسے اہل علم کے ساتھ کھانے ہی میں وہ خوشی نصیب ہو سکتی ہے!
میں تین دن اس شخص کا مہمان رہا۔ چوتھے دن اس نے کہا: ’’ حران کے اطراف میں میرے چار گاؤں موجود ہیں اور یہ گاؤں ایسے ہیں کہ پورے علاقے میں ان کی نظیر نہیں ۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آپ یہاں رہ جائیں ، توسب گاؤں آپ کی خدمت میں ہدیہ ہیں !‘‘ میں نے جواب دیا: سب گاؤں مجھے دے دو گے توخود تمہاری بسر کیسے ہوگی ؟ کہنے لگا:’’آپ وہ صندوق دیکھتے ہیں ( اور اس نے صندوقوں کی طرف اشارہ کیا)۔ ان میں چالیس ہزار درہم موجود ہیں ، اس رقم سے میں کوئی تجارت کر لوں گا!‘‘ میں نے کہا:لیکن خود مجھے یہ منظور نہیں ۔ میں نے اپنا وطن محض تحصیل علم کے لئے چھوڑا ہے، نہ کہ دولت کمانے کے لئے ! وہ کہنے لگا: یہ تو سچ ہے، مگر مسافر کو روپیہ کی ضرورت ہوتی ہی ہے، گاؤں نہ سہی ، نقد ہی قبول کر لیجئے!‘‘
اس پر میں نے چالیس ہزار کی وہ پور ی رقم لے لی۔ اسے خدا حافظ کہا اورحران سے اس حال میں روانہ ہوا کہ آگے پیچھے اونٹ لدے جا رہے تھے۔ رستے میں اصحابِ حدیث ملے، ان میں امام احمد بن حنبل ، سفیان بن عیینہ اور اوزاعی بھی تھے۔ میں نے ہر ایک کو اس قدر دیا ، جتنا اس کے مقدر میں تھا۔