کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 97
کہا: اختصار ہی میں بلاغت ہوتی ہے۔ کہنے لگے: تو سنو ’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ تندرست اور بہت دولت مند ہوگئے ہیں !‘‘یہ سن کر مجھے شوق ہواکہ فقروفاقے میں تودیکھ چکا ہوں ، اب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کومال ودولت میں بھی دیکھنا چاہیے۔ میں نے نوجوان سے کہا: کیا تمہارے پاس اتنا روپیہ ہے کہ میرے سفر کی ضرورتیں پوری ہوجائیں ؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’ آپ کی جدائی ، عراق والوں پر عام طور سے اور مجھ پر خاص طور سے بہت شاق ہو گی، مگر میرے پاس جو کچھ ہے، اسے اپنا ہی سمجھ کے لے لیجئے !‘‘ میں نے کہا: سب مجھے دے دو گے ، تو تم خود کس طرح زندگی بسر کروگے ؟ کہنے لگے: ’’ اپنی حاجت واثر سے‘‘ یہ کہہ کر اس نے مجھے بڑے غور سے دیکھا اورکہا: ’’سب نہیں لیتے تو جتنا چاہیے، لے لیجئے !‘‘ میں نے ضرورت بھر لے لیا اورعلاقہ ربیعہ کی راہ لی۔
حجام کی بدسلوکی
جمعہ کے دن میں حران پہنچا اورفضیلت ِغسل یاد آگئی ، حمام گیا ، مگر جب پانی اُنڈیلا تو خیال آیا ، سرکے بال چپک کراُ لجھ گئے ہیں ۔ حجام کو طلب کیا ۔ تھوڑے بال کاٹنے پایا تھا کہ حمام میں شہر کا کوئی امیر آدمی آگیا اورحجام کو اس خدمت کے لئے یاد کیا گیا۔ حجام نے مجھے وہیں چھوڑ دیا اورامیر آدمی کے پاس دوڑ گیا۔ پھر جب اس سے چھٹی پائی تو میرے پاس واپس آیا۔ میں نے حجامت درست کرانے سے انکار کر دیا، مگر جب حمام سے جانے لگا تو میرے پاس جو دینا ر موجود تھے، ان میں سے اکثر حجام کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا: یہ لے لو، مگر خبر دار! کبھی کسی پردیسی کو حقیر نہ سمجھنا!‘‘ حجام نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا۔ فوراً حمام کے دروازے پر ایک بھیڑ لگی گئی اور لوگ مجھے ملامت کرنے لگے کہ اتنی بڑی رقم حجام کو کیوں دے دی!
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ شہر کا ایک اور امیر آدمی ، حمام سے نکلا۔ اس کے سامنے سواری حاضر کی گئی، مگر میں بھیڑ کے سامنے تقریر کر رہاتھا ، اس کے کان میں بھی پڑ گئی۔ سوار ہو چکا تھا ، لیکن اُتر پڑا اور مجھ سے کہنے لگا: ’’ آپ شافعی ہیں ؟‘‘ میں نے اقرار کیا تو امیر آدمی نے سواری کی رکاب میرے قریب کر دی اور عاجزی سے کہنے لگا:’’ براے خدا ، سوار ہوجائیے!‘‘ میں