کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 96
نے جواب دیا: سلطنت میں شرکت کے ساتھ صبح سے شام تک بھی قاضی بننا مجھے منظور نہیں !‘‘ یہ سن کر امیر المؤمنین رو پڑے پھر فرمایا: ’’دنیا کی اورکوئی چیز قبول کرو گے ؟‘‘ میں نے کہا: جوکچھ جلد مل جائے، قبول کروں گا۔‘‘اس پر خلیفہ نے ایک ہزار درہم کا حکم دیا اور یہ رقم مجھے رخصت ہونے سے پہلے ہی مل بھی گئی۔
واپسی پر خلیفہ کے غلام اور پیش خدمت دوڑپڑے۔ مجھے گھیر لیا اور کہنے لگے: ’’ اپنے انعام میں سے ہمیں بھی کچھ دیجئے ۔ مروّت نے اجازت نہ دی کہ خدا کا فضل مجھ پر ہوا تھا ، اس میں دوسروں کو شریک نہ کروں ۔ میں نے رقم کے برابر برابر اتنے حصے کیے ، جتنے آدمی تھے ۔سب کو بانٹنے کے بعد مجھے بھی اتنا ہی ملا، جتنا ہر ایک کو میں نے دیا تھا…!
’کتاب الزعفران‘ کی تالیف
میں پھر اسی مسجد میں لوٹ آیا جس میں اُترا تھا ۔ صبح کو ایک نوجوان نے نماز کی امامت کی۔ اس کی قراء ت تو اچھی تھی مگر علم کم تھا۔ نماز میں سہو ہوگیا، مگر اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے ۔ میں نے کہا: بھائی! تم نے ہماری اوراپنی، سب کی نماز خراب کردی ۔ نوجوان نے پھر سے نماز پڑھائی۔ اب میں نے اس سے کہا : کاغذ اورقلم دوات لے آؤ ۔ میں تمہارے لئے باب السہو لکھ دوں ، وہ فوراً سب سامان لے آیا ۔ اللہ تعالیٰ نے میرا ذہن کھول دیا اورمیں نے کتاب وسنت اوراجماعِ اُمت کے مطابق ایک کتاب لکھ دی۔کتاب کا نام اسی شخص کے نام پر ’ کتاب الزعفران‘ رکھا۔ یہ کتاب چالیس جز میں پوری ہوئی ہے۔
اب مجھے تین برس اور ہوچکے تھے۔ ہارون الرشید نے اصرار کیا اور مجھے نجران کی زکوٰۃکا تحصیل دار بنا دیا تھا۔ اسی اثنا میں حاجی حجازسے لوٹے، میں ان سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اپنے وطن کے حالات معلوم کرنے چلا۔ ایک نوجوان دکھائی دیا۔ وہ اونٹ پر قبے میں بیٹھا تھا۔ میں نے اشارے سے سلام کیا ۔اس نے شتربان کو اونٹ روکنے کا حکم دیا اورمجھ سے مخاطب ہوگیا ۔ میں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اورحجاز کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ کہنے لگا: سب ٹھیک ہے، میں نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوبارہ سوال کیا، کہنے لگا:’’تفصیل کروں یا مختصر جواب دوں ؟‘‘ میں نے