کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 95
اپنے جواب سے رجوع کیا ، لیکن اس واقعہ کے بعد اورکوئی کتاب مجھے نہ دی! کچھ دن بعد میں نے سفر کی اجازت چاہی توفرمانے لگے: ’’ میں اپنے کسی مہمان کو جانے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘ پھر کہا:’’ میرے پاس جو مال ودولت موجود ہے ، اس میں سے آدھا تم لے لو!‘‘میں نے جواب دیا: ’’یہ بات میرے مقاصد و اِرادے کے خلاف ہے۔ میر ی خوشی صرف سفر میں ہے۔‘‘ اس پر اُنہوں نے اپنے صندوق کی سب نقدی منگائی۔ تین ہزار درہم نکلے۔ سب میرے حوالے کردیے اورمیں نے بلادِ عراق و فارس کی سیاحت شروع کردی۔ لوگوں سے ملتا جلتا رہا ، یہاں تک کہ میری عمر اکیس برس ہو گئی۔ خلیفہ ہارون الرشید سے ملاقات پھر میں ہارون الرشید کے زمانے میں دوبارہ عراق آیا ۔بغداد کے پھاٹک میں قدم رکھاہی تھا کہ ایک شخص نے مجھے روکا اور نرمی سے کہنے لگا: آپ کا نام ؟ میں نے کہا: محمد۔ کہنے لگا، باپ کا نام ؟ میں نے کہا: ادریس شافعی۔ کہنے لگا :آپ ُمطلبی ہیں ؟ میں نے اقرار کیا ، توجیب سے ایک تختی نکالی اور میرا بیان اس میں قلم بند کرکے مجھے چھوڑ دیا۔ میں ایک مسجد میں پہنچا اور سوچنے لگا، اس آدمی نے جو کچھ لکھا ہے،دیکھنا چاہیے۔ اس کا انجام کیاہو گا؟ آدھی رات کے بعد پولیس نے مسجد پر چھاپہ مارا اورہر ہر آدمی کوروشنی میں دیکھنا شروع کیا۔ آخر میری باری آئی ، اورپولیس نے پکار کر لوگوں سے کہا: ’’ ڈرنے کی بات نہیں ، جس آدمی کی تلاش تھی ، مل گیا ہے!‘‘ پھر مجھ سے کہا:’’ امیر المؤمنین کے حضور چلو!‘‘ میں نے پس وپیش نہیں کیا اور فوراً اُٹھ کھڑا ہوا اورجب شاہی محل میں امیر المؤمنین پر میری نظر پڑی توصاف مضبوط آواز میں اُنہیں سلام کیا: امیر المؤمنین کو میرا انداز پسند آیا۔ سلام کا جواب دیا اور فرمایا: تم کہتے ہو کہ ہاشمی ہو؟ میں نے جواب دیا:’’ امیر المؤمنین!ہر دعویٰ کتاب اللہ میں باطل ہے !‘‘ امیر المؤمنین نے میرا نسب پوچھا ۔ میں نے بیان کردیا بلکہ آدم علیہ السلام تک پہنچا دیا۔ اس پر امیر المؤمنین کہنے لگے: ’’بے شک یہ فصاحت وبلاغت ، اولادِ مطلب ہی کا حصہ ہے! بتاؤ کیا تم پسند کروگے مسلمانوں کا قاضی بناکر تمہیں اپنی سلطنت میں شریک کر لوں اور تم سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماعِ اُمت کے مطابق اپنا اور میرا حکم چلایا کرو؟۔ ’’ میں