کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 94
امام محمد بن حسن شیبانی کے ساتھ اس کے بعد محمد بن حسن نے مجھ سے کہا: غلام کے ساتھ جاؤ ‘‘ میں ذرا ہچکچایا اوربے تکلف اُٹھ کھڑا ہوا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچا تو غلام نے کہا: مالک کاحکم ہے کہ آپ ان کے گھر سواری پر جائیں ۔ میں نے جواب دیا: تو سواری حاضر کرلو۔ غلام نے ایک خوب سجا سجایا خچر میرے سامنے کھڑا کردیا، مگر جب میں سوار ہوا تو تن کے پرانے کپڑے جنھیں چیتھڑے کہناچاہیے، نگاہوں میں بری طرح کھٹکے اوراپنی حالت پر افسوس ہوا۔ غلام، کوفے کے گلی کوچوں سے ہوتا ہوا محمد بن حسن کے گھر لایا۔ یہاں دروازوں پر ، ڈیوڑھیوں پر نقش ونگار دیکھے اور اہل حجاز کی قابل رحم مفلسی بے اختیار یاد آگئی۔ آنکھیں بہہ نکلیں اور میں کہہ پڑا: ’’وائے حسرت! عراق والے تو اپنے گھر سونے چاندی سے آراستہ کریں اورحجاز کی مخلوق گھٹیا گوشت کھائے اورسوکھی گٹھلیاں چوستی رہے!‘‘ میں رورہا تھا کہ محمد بن حسن آگئے، کہنے لگے:’’بندہ خدا ،یہ جوکچھ تمہاری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ، اس سے کوئی برا اثر نہ لینا، یہ سب حلال کمائی کا ہے ، اوراس کی فرض زکوٰۃ میں کوتاہی کا خدا مجھ سے جواب نہیں طلب کرے گا ۔سالانہ پوری زکوٰۃ نکالتا ہوں ۔ دوست دیکھ کرخوش ہوتے ہیں اوردشمنوں کے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں !‘‘ پھر محمد بن حسن نے ایک ہزار درہم کا قیمتی جوڑا مجھے پہنایا اوراپنے کتب خانے سے امام ابوحنیفہ کی تالیف الکتاب الأوسط نکال لائے۔ میں نے کتاب اُلٹ پلٹ کے دیکھی اور رات کو اسے یاد کرنا شروع کردیا۔ صبح ہونے سے پہلے ہی پور ی کتاب حفظ تھی ، مگر محمد بن حسن کو اس کی ذرا خبر نہ ہوئی …! محمد بن حسن کوفے میں سب سے بڑے مفتی تھے۔ ایک دن میں ان کے دائیں طرف بیٹھا تھا کہ ایک مسئلے کا فتویٰ پوچھا گیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ یہ کہا ہے۔میں بول اُٹھا:’’ آپ سے سہو ہوگیا ہے۔ اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول وہ نہیں ، یہ ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب میں اس مسئلے کا ذکر فلاں مسئلے کے نیچے اورفلاں مسئلے کے اوپر کیا ہے!‘‘ محمد بن حسن نے فوراًکتاب منگوا کر دیکھی، تومیری بات بالکل ٹھیک نکلی۔ اُنہوں نے اسی وقت