کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 93
کا ہے جس کی علم پر نظر ہے مگر اُنہوں نے کہا: ’’پھر جاکے پوچھو، وہ دونوں فرض کون ہیں اور سنت کیا ہے؟ لڑکے نے آکر مجھ سے یہی سوال کیا: میں نے جواب دیا: ’’پہلا فرض نیت ہے دوسرا فرض تکبیرۂ اِحرام ہے اور سنت دونوں ہاتھوں کا اُٹھانا ہے۔‘‘لڑکے نے میرا یہ جواب بھی دونوں صاحبوں کو سنا دیا۔ اب وہ مسجد میں داخل ہوئے، مجھے غور سے دیکھا اور میرا خیال ہے کہ حقیر ہی سمجھا۔ وہ ایک طرف بیٹھ گئے اور لڑکے سے کہا: ’’ جاؤ اور اس شخص سے کہو کہ مشائخ کے روبرو آئے۔ ‘‘ پیغام سن کر میں سمجھ گیا کہ علمی مسائل میں میرا امتحان لیں گے۔ میں نے لڑکے کو جواب دیا: ’’لوگ علم کے پاس آتے ہیں اور علم ان کے پاس نہیں جاتا۔ پھر یہ بھی معلوم نہیں کہ تمہارے مشائخ سے ملنے کی مجھے ضرورت ہی کیا ہے!‘‘ میرا یہ جواب پاتے ہی محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور میری طرف بڑھے جب اُنہوں نے مجھے سلام کیا تو میں بھی اُٹھ کھڑا ہوگیا اور بشاشت ظاہر کی۔ وہ بیٹھ گئے میں بھی اُن کے سامنے بیٹھ گیا۔ محمد بن حسن نے گفتگو شروع کی: کہنے لگے’’ حرم کے رہنے والے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا: جی ہاں ! کہنے لگے: ’’عر ب ہو یا عجم کی اولاد؟‘‘میں نے کہا عر ب ہوں ۔ کہنے لگے: ’’ کون عرب ہو؟ ‘‘میں نے جواب دیا: مطلب کی اولاد سے ہوں ۔ کہنے لگے مطلب کی کس اولاد سے؟ میں نے شافع کا نام لیا توکہنے لگے: ’’ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو تم نے دیکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ جی ہاں ! امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہی کے پاس سے آرہا ہوں ۔ کہنے لگے ’’موطأ ٔبھی دیکھی ہے ؟‘‘ میں نے کہا، موطأ کودیکھنا کیا ، حفظ بھی کرچکاہوں ! محمد بن حسن کویہ بات بڑی معلوم ہوئی، یقین نہ آیا اور اسی وقت لکھنے کا سامان طلب کیا اور ابوابِ فقہ کا ایک مسئلہ لکھا۔ ہر دومسئلوں کے درمیان کافی جگہ خالی رکھی اورکاغذ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا:’’ان مسائل کا جواب موطأ سے لکھ دو۔‘‘ میں نے کتاب اللہ، سنت ِرسول اللہ اوراجماعِ اُمت کے مطابق سب مسئلوں کے جواب لکھے اورکاغذ محمد بن حسن کے سامنے رکھ دیا۔ اُنہوں نے بغور میر ی تحریر پڑھی پھر مڑ کر غلام کو حکم دیا: ’’ اپنے آقا کو گھر لے جا!‘‘