کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 92
نے اپنے بال بچوں کے لئے رکھ لئے ہیں اور پچاس تمہارے واسطے لے آیا ہوں !‘‘ پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے چار دینا ر میں اونٹ طے کردیا۔ باقی رقم میرے حوالے کی اورمجھے خداحافظ کہا۔
کوفے میں آمد
حاجیوں کے اس قافلے کے ساتھ میں روانہ ہوگیا۔ چوبیسویں دن ہم کوفے پہنچے اور عصر کے بعد میں مسجد میں داخل ہوا ۔نماز پڑھی اور بیٹھ گیا۔ اسی دوران ایک لڑکا دکھائی دیا۔ نماز پڑھ رہا تھا، مگر اس کی نماز ٹھیک نہیں تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا اورنصیحت کر نے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ میں نے کہا: میاں صاحبزادے! نماز اچھی طرح پڑھا کرو،تاکہ خدا تمہارے اس حسین مکھڑے کو عذابِ دوزخ میں مبتلا نہ کرے!‘‘
لڑکے کو میری بات بری لگی اور کہنے لگا:’’ معلوم ہوتا ہے تم حجازی ہو، یہ سختی وخشکی حجازیوں ہی میں ہوتی ہے۔ عراقیوں جیسی نرمی وشگفتگی بھلا ان میں کہاں ۔ میں پندرہ برس سے اسی مسجد میں محمد بن حسن اور ابویوسف کے سامنے نماز پڑھ رہا ہوں ۔ ان اماموں نے تو کبھی ٹوکا نہیں ۔ اب آئے ہو تم اعترا ض کرنے!‘‘یہ کہہ کر لڑکے نے اپنی چادر ، غصے اورحقارت سے میرے منہ پرچادر جھاڑ دی اور اینٹھتا بررتا چلا گیا…!
امام محمد اورامام یوسف سے ملاقات
اتفاق سے مسجد کے دروازے ہی پر لڑکے کو محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ اور ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ مل گئے ۔لڑکا ان سے کہنے لگا: ’’آپ حضرات نے میر ی نمازمیں کبھی کوئی خرابی دیکھی ہے۔‘‘ اُنہوں نے جواب دیا’’خدا یا، کبھی نہیں !‘‘ لڑکا کہنے لگا: ’’مگر ہماری مسجد میں ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جس نے میری نماز پر اعتراض کیا ہے !‘‘ دونوں اماموں نے کہا:’’ تم اس شخص کے پاس جاؤ اور سوال کرو کہ نماز میں کس طرح داخل ہوتے ہو؟‘‘ لڑکا لوٹ آیا اور مجھ سے کہنے لگا: ’’ اے وہ! جس نے میری نمازپر حرف گیر ی کی ہے، ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم نماز میں کس طرح داخل ہوتے ہو؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’دو فرض اور ایک سنت کے ساتھ نماز میں داخل ہوتا ہوں ۔ ‘‘ لڑکا یہ سن کر چلاگیا اور محمد بن قاسم اور ابو یوسف کو میرا جواب پہنچا دیا۔ اس پر وہ سمجھ گئے کہ جواب ایسے آدمی