کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 91
عراق کو قافلہ
حج کے بعد زیارت کرنے اورموطأ سننے کے لئے مصر کے لوگ مدینے آئے اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچے۔ میں نے مصریوں کو پوری موطأ زبانی سنا دی۔
اس کے بعد عراق والے مسجد ِنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو حاضر ہوئے۔ قبر اورمنبر کے درمیان مجھے ایک نوجوان دکھائی دیا ۔خوبصورت تھا، صاف ستھرے کپڑے پہنے تھا ۔اس کی نماز بھی اچھی تھی۔ قافیہ بتا رہا تھا کہ بھلا آدمی ہے اور بھلائی کی اُمید اس سے باندھی جاسکتی ہے۔ میں نے نام پوچھا، بتا دیا۔ میں نے وطن پوچھا،کہنے لگا: عراق۔ میں نے سوال کیا: عراق کا کونسا علاقہ؟ اس نے جواب دیا: کوفہ۔ میں نے کہا: کوفے میں کتاب اللہ اورسنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم اور مفتی کون ہے ؟کہنے لگا: ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اورمحمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ ،جو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں ۔ میں نے پوچھا : عراق کو تمہاری واپسی کب ہوگی؟ اس نے جواب دیا :کل صبح تڑکے۔
یہ سن کر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پا س آیا اورعرض کیا: ’’مکے سے طلب ِعلم میں نکلا ہوں ۔ بوڑھی (والدہ) سے اجازت بھی نہیں لی ہے، اب فرمائیے کیا کروں ؟بڑھیا کے پاس لوٹ جاؤں یا علم کی جستجو میں آگے بڑھوں ؟‘‘
امام مالک نے جواب دیا: ’’علم کے فائدے کبھی ختم نہیں ہوتے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ طالب ِعلم کے لئے فرشتے اپنے پر پھیلادیتے ہیں ؟‘‘
میں نے سفر کا اِرادہ پکا کر لیا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے راستے کے لئے میرے کھانے کا بندوبست کر دیا۔ صبح تڑکے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مجھے پہنچانے بقیع تک آئے اور زور سے پکارنے لگے۔ ’’کوفے کے لئے کون اپنا اونٹ کرائے پر دیتا ہے؟‘‘یہ سن کر مجھے بہت تعجب ہوا اورعرض کیا ’’یہ کیا کر ر ہے آپ؟ نہ میرے پاس کوئی پیسہ ہے، نہ خود آپ ہی کی حالت کسی قابل ہے۔ پھر یہ کرائے کا اونٹ کیسا؟‘‘ امام مالک مسکرا ئے اور کہنے لگے: ’’نمازِ عشاء کے بعد جب تم سے رخصت ہوا تو دروازے پردستک پڑی باہر نکلا ’تو عبد الرحمن بن قاسم کھڑے تھے۔ ہدیہ لائے تھے، منتیں کرنے لگے کہ قبول کر لوں۔ ہاتھ میں ایک ہتھیلی تھمادی ۔تھیلی میں سودینار نکلے، پچاس میں