کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 90
کو دھونا چاہئے اورکھانے کے بعد آخر میں اس لئے ہاتھ دھوتا ہے کہ شاید اورکوئی مہمان آجائے تو کھانے میں میزبان اس کا بھی ساتھ دے سکے!‘‘ اب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خوان کھولا تو اس میں دو برتن تھے۔ ایک میں دودھ تھا اوردوسرے میں کھجوریں ۔ امام مالک نے بسم اللہ کہی میں نے بھی بسم اللہ کہی اورہم نے کھانا ٹھکانے لگا دیا۔ مگر مالک بھی جانتے تھے کہ کھانا کافی نہیں ہے۔ کہنے لگے’’ابو عبد اللہ! ایک مفلس قلاش فقیر ، دوسرے فقیر کے لئے جوکچھ پیش کرسکتا تھا، یہی تھا!‘‘میں نے عرض کیا: ’’وہ معذرت کیوں کرے جس نے احسان کیا ہے؟ معذرت کی توقصور وار کو ضرورت ہوتی ہے!‘‘ امام مالک کا اخلاق کھانے کے بعد امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مکہ والوں کے حالات پوچھتے رہے اور جب رات زیادہ ہوگئی تواُٹھ کھڑے ہوئے اورفرمایا: ’’مسافر کو لیٹ لوٹ کر تھکن کم کرنا چاہیے، اب تم آرام کرو۔ ‘‘ میں تھکا ہوا تو تھا ہی، لیٹتے ہی بے خبر سوگیا ۔پچھلے پہر کو کوٹھڑی پر دستک پڑی اورآوازآئی: اللہ کی رحمت ہو تم پر… نماز!‘‘ میں اُٹھ بیٹھا ۔کیا دیکھتا ہوں کہ خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ہاتھ میں لوٹا لئے کھڑے ہیں !مجھے بڑی شرمندگی ہوئی۔ مگر وہ کہنے لگے: ’’ابو عبد اللہ! کچھ خیال نہ کرو۔مہمان کی خدمت فرض ہے!‘‘ میں نماز کے لئے تیار ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ فجر کی نمازادا کی ۔اندھیرا بہت تھا، کوئی کسی کو پہچان نہیں سکتا تھا۔ سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ کر تسبیح وذکر الٰہی میں مصروف ہوگئے یہاں تک کہ پہاڑیوں پر دھوپ نمودار ہوگئی۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جس جگہ کل بیٹھے تھے، اسی جگہ آج بھی جا بیٹھے اور اپنی کتاب موطأ میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے کتاب سنانا شروع کی اورلوگ لکھنے لگے۔ میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے گھر آٹھ مہینے رہا ۔پوری موطأ مجھے حفظ ہوگئی، مجھ میں اور امام مالک میں اس قدر محبت اور بے تکلفی ہوگئی تھی کہ اَن جان دیکھ کر کہہ نہیں سکتا تھا کہ مہمان کون ہے اور میزبان کون؟