کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 9
کے بانی ناہم گولڈن کے نام اپنے خط میں لکھا تھا: ''If I were Arab leader, I would never make terms with Israel; That is natural. We have taken their country...we come from Israel, but two thousand years ago, and what is that to them? there has been anti-semetisem, the Nazis, Hitler, Auschwitz, but was that their fault? They only see one thing: we have come here and stolen their country. Whay Should they accept that?'' ’’اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا۔یہ ایک فطری بات ہے، کیونکہ ہم نے ان سے ان کا ملک چھینا ہے۔ اگرچہ ہمارا تعلق اسرائیل سے تھا، لیکن یہ دو ہزار سال پہلے کی بات ہے۔فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہودی مخالف تحریک نازی، ہٹلر وغیرہ سب رہے ہیں ، مگر کیا اس کے ذمہ دار فلسطینی ہیں ؟ وہ صرف ایک چیز دیکھتے ہیں : ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرالیا ۔ آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں؟‘‘ پروفیسر جان میئر شیمر(John Mearsheimer)اور پروفیسر اسٹیفن والٹ (Stephen Walt)کی شہرۂ آفاق تحقیقی تصنیف ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں بھی اس خط کے مندرجات شامل کیے گئے ہیں ۔ اگر آج دنیا میں حق اور انصاف کی حکمرانی ہوتی تو ایک ایسی ریاست کوعالمی طاقتوں اوربین الاقوامی برادری کی جانب سے تسلیم ہی نہ کیا جاتا بلکہ وجود ہی میں نہ آنے دیا جاتا جو خود اپنے بانیوں کے اعتراف کے مطابق کھلے ظلم اورحق تلفی کی بنیاد پرقائم ہوئی ہے۔ لیکن جمہوریت اور انسانی حقوق کے تحفظ کو دنیا میں اپنا مشن بتانے والی مغربی طاقتوں نے اسرائیل کا ناجائز وجود صرف تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ یہ ننگ ِانسانیت ریاست نتیجہ ہی ان کی منصوبہ بندی کا ہے۔ پھر ان طاقتوں نے فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی حکمرانوں کو ہر ستم توڑنے کی بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ چنانچہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کاسلسلہ آج غزہ میں ایک نئی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ مہینوں سے محصور غزہ کے لاکھوں بے بس باشندوں