کتاب: محدث شمارہ 327 - صفحہ 89
’’مکی ہو۔‘‘ میں نے کہا :جی ہاں ، کہنے لگے :’’قریشی ہو ؟ ’’میں نے کہا ،جی ہاں ۔
فرمانے لگے: ’’سب اوصاف پورے ہیں ، مگر تم میں ایک بے ادبی ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: آپ نے میری کون سی بے ادبی دیکھی ہے؟ کہنے لگے: ’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات سنا رہا تھا اورتم تنکالئے اپنے ہاتھ پر کھیل رہے تھے!‘‘ میں نے جواب دیا: کاغذ پاس نہیں تھا ، اس لئے آپ سے کچھ سنتا تھا ، اسے لکھتا جاتا تھا۔ اس پر امام مالک نے میرا ہاتھ کھینچ کر دیکھا اور فرمایا: ہاتھ پر تو کچھ بھی لکھا نہیں ہے! ‘‘ میں نے عرض کیا ، ہاتھ پر لعاب باقی نہیں رہتا ،لیکن آپ نے جتنی حدیثیں سنائی ہیں ،مجھے سب یاد ہو چکی ہیں ۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو تعجب ہوا کہنے لگے: ’’سب نہیں ، ایک ہی حدیث سنا دو۔‘‘ میں نے فوراً کہا: ہم سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے، نافع رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واسطے سے اس قبر کے مکین سے روایت کیا ہے۔ ‘‘ اور مالک ہی کی طرح میں نے ہاتھ پھیلا کر قبر شریف کی طرف اشارہ کیا پھر وہ پور ی پچیس حدیثیں سنادیں جو اُنہوں نے اپنے بیٹھنے کے وقت سے مجلس کے خاتمے تک سنائی تھیں ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں
اب سورج ڈوب چکا تھا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے نمازپڑھی پھر میری طرف اشارہ کرکے غلام سے کہا: ’’اپنے آقا کا ہاتھ تھام‘‘اور مجھ سے فرمایا:’’اُٹھو، غلام کے ساتھ میرے گھر جاؤ۔ ‘‘ میں نے ذرا انکار نہ کیا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔ امام مالک جو مہربانی مجھ سے کرنا چاہتے تھے میں نے بخوشی قبول کر لی۔ جب گھر پہنچا توغلام ایک کوٹھڑی میں مجھے لے گیا اور کہنے لگا: گھر میں قبلے کا رخ یہ ہے۔ پانی کا لوٹا بھی یہ رکھاہے اور بیت الخلا ادھر ہے۔
تھوڑی دیر بعد خود امام مالک رحمۃ اللہ علیہ آگئے۔ غلام بھی ساتھ تھا، اس کے ہاتھ پر ایک خوان تھا۔ مالک نے خوان لے کر فرش پر رکھ دیا۔ پھر مجھے سلام کیا اور غلام سے کہا: ہاتھ دھلا، غلام برتن لئے میری طرف بڑھا، مگر مالک نے ٹوکا: ’’جانتا نہیں ، کھانے سے پہلے میزبان کو ہاتھ دھونا چاہیے اورکھانے کے بعد مہمان کا۔‘‘ مجھے یہ بات پسند آئی اور اس کی وجہ دریافت کی۔ امام مالک نے جواب دیا: ’’میزبان کھانے پر مہمان کو بلاتا ہے ، اس لئے پہلے ہاتھ بھی میزبان ہی